فرانس کے صدر فرانسواں اولاند نے دنیا کے مختلف ممالک کے شہروں کے میئرز سے خطاب میں ان پر زور دیا ہے کہ وہ موسمیاتی تغیرات سے نمٹنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
جبکہ انہوں نے ان مئیرز کو سراہا جو پہلے ہی سے کاربن کا کم اخراج کرنے والی عمارتوں کی تعمیر اور عوام کے لیے ماحول دوست ٹرانسپورٹ پالیسوں پر عمل پیرا ہیں۔
"دنیا میں کوئی بھی ملک موسمیاتی تغیرات کے انتشار سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھ سکتا ہے"۔
اولاند نے پیرس کانفرنس کے موقع پر دنیا بھر سے آنے والے میئرز اور مقامی عہدیداروں سے خطاب میں کہا کہ " 2050 تک دنیا کے دو تہائی آبادی شہروں میں مقیم ہوگی"۔ انہوں ںے میئرز پر زور دیا کہ وہ شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
دوسری طرف پیرس کے قدرتی ماحول سے متعلق مذاکرات کے موقع پر کئی سرگرم کارکنوں نے فٹ پاتھوں پر "مردوں" کی طرح لیٹ کر دنیا کی اس آبادی کی نمائندگی کی جسے سمندری سطح کے بلند ہونے اور انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے شدید موسمیاتی تغیرات کے خطرے کا سامنا ہے۔ یہ کارکن ممکنہ عالمی موسمیاتی معاہدے میں عالمی حدت کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کے مداوے کے وعدے کو شامل کروانا چاہتے ہیں۔
پیرس میں اقوام متحدہ کے تحت جاری کانفرنس میں موسمیاتی تغیرات سے نمٹنے کے لیے مستقبل کے لیے ایک امکانی سمجھوتے کے لیے دنیا کے 11 ممالک نے کسی طرح کی بھی یقین دہانی نہیں کروائی ہے۔
ان میں کچھ ممالک کو جنگ کا سامنا ہے جبکہ دوسرے قدرتی آفات سے سنبھلنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ کئی ایک اقوام متحدہ کے تحت ہونے والی کانفرنس میں کسی طرح کے امکانی معاہدے کے نظریاتی بنیادوں پر مخالف ہیں۔
ان ممالک میں شورش کا شکار شام، شمالی کوریا اور لاطینی امریکہ کے سوشلسٹ ممالک شامل ہیں جن کا موقف ہے کہ مغرب کو عالمی سطح پر کاربن کے اخراج کے مسئلے سے نمٹنے ہوگا۔
اس کانفرنس میں شریک نگاراگوا کے مندوب کا کہنا ہے کہ"جنہوں نے اس مسئلے کو جنم دیا وہی اس کو حل کریں"۔
اقوام متحدہ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے 195 ممالک میں سے 184 کے طرف سے یقین دہانی کروا ئی جا چکی ہے جو موسمیات تغیرات کے متعلق پیرس میں جاری اقوام متحدہ کی کنویشن میں فریق ہیں اور وہ ان سب ممالک کی نمائندگی کرتے ہیں جو کاربن کا اخراج کرتے ہیں۔
اقوم متحدہ 26 ممالک کے اتحاد کو ایک الگ حیثیت کا حامل قرار دیتی ہے اس وجہ سے تمام فریقین کی کل تعداد 196 ہے۔
اگرچہ مجوزہ اجتماعی اہداف کو اگر شامل کیا جائے تو وہ اتنے کافی نہیں ہوتے جن کے بارے میں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ حدت کے خطرناک حد سے بچاؤ کے لیے ضروری ہیں۔