رسائی کے لنکس

میڈیا گیٹ۔۔’’ دنیا‘‘ والے کیا کہتے ہیں ؟


دنیا ٹی وی کے چیف آپریٹنگ آفیسر نوید کاشف کہتے ہیں کہ وہ اپنے ادارے سے وابستہ صحافیوں کو میڈیا پریکٹسز کے حوالے سے ہدایات دیتے رہتے ہیں اور اس ضمن میں ایک گائیڈ انٹڑنل سسٹم میں موجود بھی ہے۔

ایک نجی ٹی وی چینل دنیا ٹی وی پر ارسلان افتخار کیس کے اہم کردار ملک ریاض کے انٹرویو کے کچھ گھنٹوں بعد وقفوں میں مہمان اور میزبانوں کے درمیان ہونے والی ’’آف ایر‘‘ بات چیت کی وڈیو یوٹیوب پر جاری کر دی گئی۔ اس آڈیو نے صحافتی حلقوں میں بظاہر بھونچال برپا کر دیا ہے۔ اور ملک میں ایک مرتبہ پھر یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کوئی بھی شخص یا شعبہ ’’مقدس گائے‘‘ نہیں ہونا چاہیے اور تمام کے لیے اپنے اپنے شعبوں میں مروجہ ضابطہ ہائے اخلاق کی پابندی لازم ہونی چاہیے۔

اسد حسن نے پروگرام ان دا نیوز میں پاکستان کے ایک سینئر اور تجزیہ کار نجم سیٹھی سے اس سلسلے میں بات چیت کی اور میڈیا لیکس سکینڈل پر یہ جاننے کے لیے کہ دنیا والےکیا کہتے ہیں، چینل کے چیف آپریٹنگ آفیسر نوید کاشف سے گفتگو کی۔

نجم سیٹھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ جرنلسٹ کے لیے جو بین الاقوامی ضابطہ اخلاق ہے، اس کا اطلاق یہاں بھی ہر صورت ہونا چاہیے۔ لیکن ان کے بقول پاکستان کے میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا میں جس میں زیادہ تر اینکرز کی عمر 25 سے 40سال ہے ان میں سے بیشترابھی اس کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں۔ اور اس سے سوا یہ کے چینل کے مالکان کے مفادات بھی کوڈ آف کنڈکٹ کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ان کے بقول پیمرا نہ عدلیہ، کوئی بھی فی الوقت اینکرز کو کوڈ آف کنڈکٹ کا پابند نہیں کر سکے گا البتہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے بعد یہ صحافی خود ہی کوڈ آف کنڈکٹ میں عافیت دیکھیں گے، مگر اس وقت کے لیے کچھ انتظار کرنا پڑے گا۔

دنیا ٹی وی کے چیف آپریٹنگ آفیسر نوید کاشف کہتے ہیں کہ وہ اپنے ادارے سے وابستہ صحافیوں کو میڈیا پریکٹسز کے حوالے سے ہدایات دیتے رہتے ہیں اور اس ضمن میں ایک گائیڈ انٹڑنل سسٹم میں موجود بھی ہے۔ وہ دنیا ٹی سے کے متنازعہ انٹرویو کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ’’پلانٹ‘‘ نہیں کیا گیا تھا اور اس کے حق میں وہ دلیل دیتے ہیں کہ آف ایرلیکس کے بجائے جو انٹرویو نشر کیا گیا اس میں مہمان کو کوئی خاص رعایت نہیں دی گئی۔ آف ایر میں ان کے بقول اینکرز ور مہمانوں کے درمیان اپنی اپنی فرینکنس کے مطابق گپ شپ ہوتی رہتی ہے اس کے لیے ادارہ جوابدہ کیسے ہو سکتا ہے

تاہم وہ کہتے ہیں کہ یہ بہترین وقت ہے کہ تمام میڈیا تنظیمیں اور چینلز کوڈ آف کنڈکٹ واضح کریں اور اس پر عمل کریں۔ انہوں نے بتایا کہ متنازعہ پروگرام کے دو اینکرز میں سے ایک کو اس لیے آف ایر کیا گیا ہے کہ ان کے خلاف ادارہ جاتی انکوائری ہو رہی ہے اوراس انکوائری کی وجہ وڈیو لیکس نہیں بلکہ پروگرام کے دوران ان کا اٹھ کر چلے جانا تھا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی راہنما یاسمین رحمان اور سندھ اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر شہلا رضا نے بھی اس بات کی تائید کی کہ کوڈ آف ایتھکس ہونے چاہیں اور ان پر عمل درآمد بھی ہونا چاہیے۔ سابق جسٹس وجیہہ الدین نے کہا کہ میڈیا والے ہوں یا سیاستدان، وکیل ہوں یا کسی اور شعبے سے وابستہ افراد، سب کوضابطہ اخلاق کے اندر رہ کر کام کرنا چاہیے۔

نجم سیٹھی اور نوید کاشف کے انٹڑویو کی تفصیلت سنیے اس آڈیو لنک میں ۔۔۔

XS
SM
MD
LG