پاکستانی نژاد برطانوی شہری محمدحمزہ شہزاد چھ سال کی عمر میں مائیکروسافٹ آفس سویٹ کا امتحان پاس کرکے دنیا کےکم عمر ترین سند یافتہ 'مائیکرو سافٹ آفس پروفیشنل '(ایم او پی) بن گئے ہیں۔
حمزہ شہزاد مائیکرو سافٹ آفس کی ایکسپرٹ مہارتوں کے ساتھ دوسرے مائیکرو سافٹ ماہرین بچوں سے ممتاز ہیں۔ انھیں دنیا کے دوسرےکم عمرترین 'مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ' پروفیشنل اور ٹیکنالوجی کی دنیا کے ینگسٹ 'ایم او پی' ہونےکا اعزاز حاصل ہوا ہے۔
دنیا کے کم عمر ترین 'مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کا اعزاز بھی خوش قسمتی سے پاکستانی نژاد برطانوی اعیان قریشی کےپاس ہےجنھوں نے پچھلے سال پانچ سال کی عمر میں امتحان پاس کیا تھا۔
مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل ایک سرٹیفیکٹ ہےجو مائیکرو سافٹ کی مصنوعات کے وسیع انتخاب کا احاطہ کرتا ہے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں پیشہ ورانہ مہارتوں کی تصدیق کرتا ہے۔جس میں ایک یا ایک سے زیادہ امتحانات پاس کرنے پر انفرادی سرٹیفیکٹ سے نوازا جاتا ہے۔
مائیکرو سافٹ سرٹیفیکٹ حاصل کرنے کے لیے 700 نمبر حاصل کرنا ضروری ہیں، جبکہ حمزہ شہزاد نے 757 نمبروں کے ساتھ نمایاں کامیابی حاصل کر کے ایک بار پھ ثابت کیا کہ پاکستانی بچے آئی ٹی کہ تکینیکی مہارتوں سے کھیلنا باخوبی جانتے ہیں۔
ٹیکنالوجی کے جینئیس حمزہ شہزاد پہلی جماعت کے طالب علم ہیں وہ اپنے ہم عمر بچوں کی طرح کھیلنے کودنے اور ویڈیو گیمز کھیلنےکا شوقین ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ حمزہ کو آفس سوفٹ وئیر کو ایکسپرٹ لیول پرجا کر استعمال کرنےکا بھی شوق ہے۔
ایک جینئس بچے کے ماں باپ ہونے کے ناطےحمزہ کے والدین نے اس کی صلاحیتوں کو کب اور کیسے پہچانا اس حوالے سے 'وی او اے' نے حمزہ کے والدین عاصم شہزادہ اور والدہ سیماب شہزاد سے خصوصی گفتگو کی ہے۔
حمزہ کی والدہ سیماب شہزاد لاہور میں اسکول میں ٹیچر رہ چکی ہیں، اپنے بیٹے کی شاندار کامیابی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ والدین ہونے کی حیثیت سے یقینا ہماری خوشی بہت زیادہ ہے اور یہ سوچ کر فخر محسوس ہوتا ہےکہ حمزہ نے پاکستان کا نام روشن کیا ہے جبکہ حمزہ کےاسکول اور اساتذہ کو بھی اس کی کامیابی پر فخر ہے۔
حمزہ آرک اوول پرائمری اسکول کرائیڈن لندن میں زیر تعلیم ہے جہاں انھیں اساتذہ کی طرف سے ایک اسٹار طالب علم کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن گھر میں حمزہ ایک کم گو اور خاصا شرمیلا بچہ ہے۔
حمزہ نے بتایا کہ 'کمرہ امتحان میں مجھےتھوڑا سا ڈر لگا تھا۔ لیکن پھر میں نے سوچا کہ مجھے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے میں تو سب یاد کر کے آیا ہوں۔'
حمزہ کے والد عاصم شہزاد لندن کی ایک آئی ٹی کمپنی میں ایڈوائزر ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ 'حمزہ ڈھائی سال کی عمر سے انتہائی پیچیدہ پزل حل کرنے میں حد درجے دلچسپی رکھتا ہے، اسے ویڈیو گیمز کھیلنےکا جنون کی حد تک شوق ہے۔ مجھے اکثر یہ بات اچھی نہیں لگتی تھی کہ حمزہ کا رجحان کھیلنے کی طرف زیادہ ہے۔ میں نےکھیل پر سے اس کی توجہ ہٹانے کے لیے اسے پندرہ تک پہاڑے یاد کرانے شروع کئے جو وہ آسانی سے یاد کر لیتا تھا۔
اس کی ذہانت کو دیکھتے ہوئے بعد میں حمزہ کو ایڈوانس ریاضی کےمسائل حل کرائے۔ لیکن میں دیکھ رہا تھا کہ اس کا رجحان ٹیکنالوجی کی طرف زیادہ ہے۔ لہذا میں نے اپنے 12 سالہ آئی ٹی کے تجربے کی بنیاد پر حمزہ کو مائیکروسافٹ سرٹیفیکٹ کے امتحان کی تیاری کرانےکا ارادہ کر لیا، یہاں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم نے یہ فیصلہ دنیا کی پہلی کم عمر ترین ایم سی پی کا اعزاز پانے والی مرحومہ ارفع کریم سے متاثر ہو کر کیا تھا ۔'
عاصم شہزاد نے بتایاکہ 'جب میں نے حمزہ سے کہا کہ آپ جو ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں اسے خود بھی تیار کر سکتے ہیں اور کتنا اچھا ہوگا کہ جب آپ کی بنائی ہوئی گیمز سے دوسرے بچے اور آپ کے دوست کھیلیں گے اس پر وہ بےحد پر جوش ہوگیا اور اس طرح ہم نے اسے ذہنی طور پر اس امتحان کی تیاری پر آمادہ کر لیا۔'
انھوں نے کہاکہ ایک بچے کو کمپیوٹر بیسڈ امتحان سے متعلق اصطلاحات سمجھانا اور امتحان کی مرحلہ وار تیاری کرانا خاصا مشکل کام تھا اسکول سے آنے کے بعدحمزہ ہر روز ایک یا کبھی دوگھنٹے کے لیے مکمل یکسوئی سے پرچے کی تیاری کرتا تھا جس کے لیےحمزہ کی والدہ نے سخت محنت کی وہ حمزہ کو گود میں بیٹھا کر چاکلیٹ دینے کے بہانے کئی مشقیں حل کراتی اور اسطرح چھ مہینوں میں امتحان کی تیاری مکمل ہوگئی۔
مائیکرو سافٹ کا امتحان کتنا مشکل تھا اس کا جواب دیتے ہوئے شہزاد نے کہا کہ یوں سمجھ لیجیئے کہ آپ جو کمپیوٹرخریدکر لاتے ہیں وہ ایک مشین یا ہارڈوئیر ہےجو اس وقت کام کرتی ہے جب اس پر ایک آپریٹنگ سسٹم مثلا مائیکرو سافٹ ونڈوز یا پھر اپیل، اوریکل یا ریڈ ہیٹ کے پروگراموں کو انسٹال کیا جاتا ہے۔
مائیکرو سافٹ کا امتحان میں ونڈوز کی تنصیب، ترتیب اور نیٹ ورکنگ میجمنٹ کے مسائل شامل ہیں اور مائیکروسافٹ آفس ایم ایس آفس اور اس کے مختلف استعمال کے حوالے سےصلاحیتوں کا امتحان ہے جو دراصل ڈیسک ٹاپ پر کاروبار کی اپیلی کیشنز ہے اس کے تمام ورژن میں مائیکروسافٹ ورڈ ،ایکسیل، پاورپوائنٹ (پروفیشنل پریزینٹیشن ،اسپریڈ شیٹ،کاروباری خطوط تیار کرنا ) شامل ہے ۔
عاصم شہزاد کا کہنا تھا کہ پہلے یہ امتحان معروضی طرز کا ہوتا تھا۔ لیکن اب نئے فارمیٹ کے ساتھ مائیکروسافٹ کے ٹولز کا استعمال کرتے ہوئے پراجیکٹ مکمل کرنا ہوتا ہے جس میں پندرہ سو سے دو ہزار الفاظ کی لائیو دستاویزات پر کسٹم فارمیٹنگ کرنا اور ترمیم کی رپورٹ تیار کرنا ہوتی ہے جبکہ ایم ایس آفس کی ایکسپرٹ لیول کی مہارت کے بغیر اس امتحان کو پاس کرنا نامکن ہے۔
بقول عاصم شہزاد میرا ایڈوانس لیول کی مہارتوں میں بارہ سال پرانا تجربہ ہے اور اس کے باوجودجب میں اس امتحان میں بیٹھا تو مجھے لگ رہا تھا کہ میں فیل ہو جاؤں گا اگرچہ میں پاس ہوگیا لیکن حمزہ کے مقابلے میں میرے نمبر کم آئےتھے۔
شہزاد نے کہا کہ پرچہ کے روز مائیکروسافٹ لندن انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر نے مجھ سے کہا کہ آپ اپنا وقت ضایع کر رہے ہیں آپ کا بچہ تو ٹھیک سے بولنا بھی نہیں جانتا ہے اس پر میرا جواب یہ تھا کہ مجھے اپنے بچے پرپورا اعتماد ہے۔
حمزہ کے والدین چاہتے ہیں کہ حمزہ مستقبل میں ٹیکنالوجی کی دنیا کے ممتاز ماہرین کی حیثیت سے جانا جائے، وہ چاہتے ہیں کہ ان کا بیٹا بڑا ہو کر بل گیٹس بنے جنھیں دنیا دولت مند انسان ہونے کے علاوہ انسانیت اور خدا ترسی کی ایک عمدہ مثال سمجھتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ سکتا ہوں کہ حمزہ جینئس تھا اس لیے وہ امتحان میں کامیاب ہوگیا۔ بلکہ، میں سمجھتا ہوں کہ ہر بچہ اس عمر میں بل گیٹس ہے اور ہر والدین کو اپنے بچوں کی خاص صلاحیت پر توجہ دینی چاہیئےانھیں زندگی میں مقصدیت دینی چاہیئے۔
دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کرنے والے ٹیک کی دنیا کے کم عمر پاکستانی ماہرین اعیان قریشی، حمزہ شہزاد، مہروز یاور اور عزیز اعوان ملک کے لیے قیمتی اثاثہ ہیں، جن کی حیرت انگیز کامیابیاں اس بات کی علامت سمجھی جا سکتی ہےکہ یہ بچے کل کے پاکستان کا روشن چہرہ بنیں گے۔