پاکستان میں خواتین کی حالت زار، ان کے حقوق کی خلاف ورزیوں، غیرت کے نام پر قتل اور ان کے بارے میں منفی سماجی رویوں کا تذکرہ تو آئے روز سامنے آتا رہتا ہے لیکن مرد کا معاشرہ تصور کیے جانے والے پاکستانی سماج میں مردوں کو بھی کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی طریقے سے ایسے ہی منفی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
رواں سال ایسے کئی واقعات منظرِ عام پر آ چکے ہیں جن میں غیرت کے نام پر قتل کے علاوہ مردوں کو تیزاب سے حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ تاہم ایسے واقعات کی شرح خواتین کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔
پاکستان کے ایوانِ بالا "سینیٹ" کے ایک حالیہ اجلاس میں وفاقی وزارت قانون و انصاف نے نے ایوان کو بتایا کہ وفاقی محتسب کے پاس جائے کار (کام کی جگہ) پر ہراساں کیے جانے کے 59 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے 50 پر فیصلہ سنایا جا چکا ہے جب کہ نو پر ابھی کارروائی جاری ہے۔
اس جواب میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ان میں پانچ کیس ایسے تھے جو مرد حضرات نے اپنی ساتھی خواتین کی طرف سے ہراساں کیے جانے پر درج کرائے۔
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے چیئرپرسن ڈاکٹر مہدی حسن کے خیال میں یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ مردوں کو بھی بعض اوقات خواتین کے ہاتھوں پریشان کن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ان کے بقول اس کی شرح بہت ہی کم ہے۔
پیر کو وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی معاشرے میں محروم یا کمزور طبقہ امتیازی سلوک اور معاشرتی ناانصافیوں کا شکار بنتا ہے اور اس میں جنس کی تفریق کے بغیر کوئی بھی متاثر ہو سکتا ہے۔
"مردوں کو یقیناً مسائل ہیں۔ ہمارا جو کلچر ہے اس میں جو محروم طبقے ہیں ان کو کوئی بھی مسئلہ ہو سکتا ہے۔ مردوں کو بھی ہوسکتا ہے اور عورتوں کو بھی اور خاص طور پر جو محروم طبقوں کی خواتین ہیں وہ تو شکایت بھی نہیں کرتیں۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ مردوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے وہ عام طور پر با اثر خواتین کا خاندان ہو، تب ہی ایسا ہو سکتا ہے ورنہ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا۔"
قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ صنفی علوم کی ڈائریکٹر اور معروف سماجی کارکن ڈاکٹر فرزانہ باری کہتی ہیں کہ ہراساں کیے جانے والے واقعات جس کے بھی خلاف ہوں اس کی تحقیقات بہت ضروری ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ خواتین کی طرف سے مردوں کو ہراساں کیے جانے کے کوئی امکانات نہیں ہیں اور خاص طور پر جہاں خواتین بااختیار یا اثرورسوخ والی سطح پر ہوں تو ایسے واقعات رونما ہونے کے امکانات زیادہ ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر باری کہتی ہیں کہ معاشرتی طور پر مردانگی سے متعلق جو تصور لوگوں کے ذہن میں ڈال دیا جاتا ہے اسی کی وجہ سے اکثر آدمیوں کی طرف سے شکایت سامنے نہیں آتی۔
"مرد کے ساتھ اگر جنسی ہراساں کیے جانے کا معاملہ ہو، چاہے وہ جنس مخالف کی طرف سے ہو یا اسی جنس کی طرف سے، آدمی اس کی شکایت نہیں کرتا ہے کیونکہ یہ سارا معاملہ مردانگی کے تصور کے ساتھ جڑا ہوا ہے کہ اگر وہ شکایت کرے گا تو لوگ سمجھیں گے کہ وہ پورا مرد نہیں ہے اور کمزور ہے۔ مردوں کے اندر بھی صنفی آگاہی کی بہت ضرورت ہے کہ ان تصورات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ اگر وہ طاقت ور نہیں ہے تو وہ پورا مرد نہں ہے۔"
ان کے بقول ان تصورات کو بدلنے کے لیے جیسے خواتین کے لیے صنفی آگاہی کی مہم ہوتی ہے ویسے ہی مردوں کے لیے بھی ورکشاپس اور مباحثے اور مذاکرے ہونے چاہئیں اور ان پر کھل کر بات کی جانی چاہیے۔