جل پریوں کے قصے اور کہانیاں ہمیں دنیا کی مختلف قدیم ثقافتوں میں ملتے ہیں۔ کسی بھی تحقیق دان کے لیے تاریخی حوالوں سے یہ ثابت کرنا بہت مشکل ہو گا کہ جل پری کا تصورکہاں سے شروع ہوا۔
جن، بھوت، پریوں اور دوسری حیرت انگیز حلیوں والی مخلوق کا تصور تو ہمیں دنیا کی تمام ثقافتوں میں ملتا ہے۔ مگر، جل پریوں کے بارے میں جو چیز توجہ طلب ہے وہ یہ کہ مختلف ادوار میں مختلف علاقے اور ثقافتوں کے لوگوں نے بالکل ایک ہی جیسی مخلوق کاذکر کیا ہے۔ بے انتہا حسین و جمیل عورت ،جو صرف کمر تک ہی انسان تھی اورباقی دھڑ مچھلی نما۔
بہت سی کہانیوں میں یہ انسانوں سے باتیں کرتی دکھائی جاتی ہیں اور بہت سی داستانوں میں یہ صرف گانے گانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ مگر تمام تاریخی تذکروں میں سب سے دلچسپ تذکرہ کرسٹوفر کولمبس کا تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ اپنے 1493ءکے سمندری سفر میں جب کولمبس ڈومینیکن ریپبلک کے جزیرے کے پاس سے گزر رہے تھے، انہوں نے جل پریاں دیکھیٕں۔ ان کا دھڑ تو ویسا ہی تھا جیسا کہ یہ کہانیوں میں سنتے آئے ہیں مگر یہ اوپر سے اتنی حسین نہ تھیں جتنا کہ وہ تصور کرتے تھے۔
جل پریوں سے میری ذاتی دلچسپی آج سےتین سال قبل پیدا ہوئی جب امریکی ریاست فلورڈا کے سمندر میں، میں ان سمندری کچھووٴں کو تلاش کر رہا تھا جو Logger Head Turtlesکہلاتے ہیں ۔ یہ فوکس ویگن بیٹل گاڑی کے برابر بھی ہوا کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ ریاست فلورڈا کا یہ سمندر اُس علاقے سے زیادہ دور نہیں، جہاں کرسٹوفر کولمبس نے گزرتے وقت جل پریاں دیکھی تھیں۔
اتفاق سے، جس کشتی سے میں ڈائیو کررہا تھا اُسی کشتی میں میامی یونیورسٹی کے ایک میرین بایولوجسٹ بھی موجود تھے۔ جب میں نے اُن سے کرسٹوفر کولمبس کے جل پریوں کے قصےکا ذکر کیا تو وہ بولے کہ ریاست فلورڈا کے شمال میں ایک دریا تلاش کرو جسے کرسٹل ریور کہا جاتا ہے۔ اس دریا میں وہ مقام تلاش کرو جہاں سے گرم پانی اُس کی طہہ میں سے نکل کر دریا کے سرد پانی سے ملتا ہے۔ وہاں تم اس جل پری کو بھی دیکھ لو گے جس کا کولمبس نےذکر کیا تھا۔
دوسرے ہی دن، میں اپنا ڈائیونگ کا سامان جیپ میں رکھ کر کرسٹل ریور نامی دریا کی تلاش میں ریاست کےشمال کی طرف روانہ ہو گیا۔
یہ دریا زیادہ گہرا نہیں تھا ۔ اس میں کافی دور تیرنے کے بعد جو مخلوق مجھے نظر آئی اُس کی میں نے کچھ تصویریں کھینچی ہیں۔ یہ میں آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔