1505 میں معروف مصور لیونارڈو ڈا ونچی نے بیٹل آف آنجیاری کے نام سے اٹلی کے شہر فلورینس کی ایک دیوار پر ایک بہت بڑی پینٹنگ بنائی تھی ۔ لیکن آج تک کوئی بھی انسانی آنکھ سے اس پینٹنگ کو ڈھونڈ نہیں سکا۔ اور وہ پینٹنگ آرٹ کے چاہنے والوں کے لیے ایک پراسرار راز کے طور پر موجود ہے۔ لیکن ان دنوں ماہرین طبیعات کی ایک ٹیم اس راز سے پردہ اٹھانے کی کوشش میں ہے۔
امریکہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر رابرٹ سمتھر اس ٹیم کا حصہ ہیں جو لیونارڈو ڈا ونچی کی اس پر اسرار پینٹنگ کے راز کو کھوجنے کی کوشش میں ہیں۔
ڈاکٹر رابرٹ کرسٹل ڈی فریکشن نامی ایک پراسس کے بھی ماہر ہیں جس کے ذریعے ایک لینز میں نیوٹرانز کی تابکاری کو فلٹر کرکے دور کی چیزوں کی شبیہ واضح کی جاسکتی ہے۔ اس کے ذریعے انسانی آنکھ دور دراز موجود ستاروں کو دیکھ سکتی ہے اور انسانی جسم میں موجود کینسر ٹیومرز کو بھی۔
رابرٹ کا کہنا ہے کہ جسم میں تابکار شعاعیں گزاری جاتی ہیں جو کینسر کی جگہ پر مرتکز ہو جاتی ہیٕں۔ میرے بنائے ہوئے طریقے سے وہ سکین ہو کر ڈاکٹرز کو ایک تصویری شکل فرراہم کردے گا جس سے انھیں کینسر کی شکل کے بارے میں پتا چلتا ہے اور آپریشن میں آسانی ہوجاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس طریقے سے ان لوگوں کی مدد ہو سکتی ہے جو لیونارڈو ڈا ونچی کی اس پر اسرا پینٹنگ کو تلاش کر رہے ہیں جو ایک دیوار پر بنائی گئی تھی ؟
ڈاکٹر رابرٹ کا جواب اثبات میں ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈاونچی کی وہ پر اسرا اور گمشدہ پینٹنگ ایک دیوار کے پیچھے چھپی ہے۔ جسے ایک آرٹسٹ واساری نے 16ویں صدی کے آخر میں کھڑا کیا تھا۔
اس پنٹنگ کو تلاش کرنے کے لیے کئی دوسرے روایتی طریقے اپنائے جاچکے ہیں لیکن تصویر کو تلاش نہیں کیا جاسکا۔
رابرٹ کہتے ہیں کہ انھوں نے اس دیوار میں کچھ سوراخ کرکے یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ شاید انھوں کوئی پینٹ نظر آجائے۔ لیکن اٹلی کی حکومت نے اس دیوار میں مزید سوراخ کرنے میں ہچکچاہٹ دکھائی ، اور پھر ہمیں اس اس طریقے کوا ستعمال کرنے کے لیے کہا گیا۔
امریکی نیشنل جیو گرافک سوسائٹی کے ٹیری گارسیا کہتے ہیں کہ اس دیوار میں سوراخ کرتے ہوئے اس آرگینک میٹیریل کے ذرات پائے گئے جو ڈاونچی اپنی پینٹنگز میں استعمال کرتے تھے۔ جس سے ماہرین کو یقین ہو رہا ہےکہ پینٹنگ اسی دیوار میں موجود ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس پینٹنگ کو نقصان پہنچائے بغیر ہم وہ دیکھ سکیں گے ؟
رابرٹ کاکہنا ہےکہ اس میں وقت اور پیسہ لگے گا۔ لیکن انھیں امید ہے کہ ان کا ایجاد کیا ہوا کرسٹل ڈی فریکشن کا طریقہ انھیں دنیا کے مانے ہوئے مصور کی اس پراسرار پینٹنگ تک پہنچا پائے گا۔