ایران پر براہِ راست حملے کے نتائج کیا ہوں گے؟
ایسے میں جب اسرائیلی فوج مشرق وسطیٰ کے اندر ایران کے اتحادیوں پر دو ہزار میل کے فاصلے تک اہداف کو نشانہ بنا رہی ہے اور ایران کے لیے بھی خطرات پیدا کر رہی ہے، امریکہ میں ماہرین کے نزدیک یہ کوششیں ممکنہ طور پر خطے کے اندر ایران کی دو عشروں سے قائم غلبے کو انجام تک پہنچا سکتی ہیں۔
ایران کو یہ خطے میں یہ غلبہ سال دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے نتیجے میں حاصل ہو گیا تھا۔
واشنگٹن، تل ابیب، یروشلم اور دیگر عرب دارالحکومتوں میں اسرائیلی حملوں کے حامی اور مخالفین اس بارے میں متضاد خیالات کا اظہار کر رہے ہیں کہ اس کے بعد امریکہ کو کیا کرنا چاہیے۔
اسرائیل کے اتحادی اس کی کارروائیوں کو لبنان میں حزب اللہ، یمن میں حوثی کے خلاف اور غزہ میں سال بھر سے حماس کو تباہ کرنے کی مہم کو ’ٹیکٹیکل کامیابی‘ کے طور پر بیان کر رہے ہیں۔
رچرڈ گولڈبرگ واشنگٹن میں دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے ادارے فاونڈیشن فار دا ڈیفنس آف ڈیموکریٹس کے ساتھ بطور سینئر ایڈوائز منسلک ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل کو اس وقت تک امریکہ سے مدد ملتی رہنی چاہیے جب تک کہ ایران کی حکومت کی ماضی کی آمریتوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں نہیں پھینک دیا جاتا۔
اسرائیل کی کئی سیاسی شخصیات بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کر رہی ہیں۔
اسرائیل کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ایک سابق اسٹاف یائل گوزانسکی بائیڈن انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایران پر براہ راست حملوں میں اسرائیل کا ساتھ دے۔
’’اس سے ایرانیوں کو براہِ راست ایک پیغام جائے گا کہ ہمارے ساتھ مت الجھنا۔‘‘
تاہم نقاد امریکہ کی عراق کے اندر فوجی مہم، وہاں صدام حسین حکومت کے خاتمے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات سے حاصل ہونے والے سبق کو اجاگر کرتے ہیں۔
سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے جب عربوں کی طرف سے اس انتباہ کو نظر انداز کر دیا تھا کہ عراق میں ایک آمر خطے میں ایران کے اثرورسوخ کے خلاف ایک اہم توازن ہے۔