مشرق وسطی تبدیلی کی لہروں سے نبرد آزما ہے ۔کہیں مزید اصلاحات ، کہیں پارلیمانی جمہوریت اور کہیں خوراک کی قیمتیں کم کر کے تبدیلی کے مطالبے کا جواب دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ایک امریکی ویب سائٹ بزنس انسائیڈر ڈاٹ کام نے دنیا کے نقشے میں گیارہ ایسے ملکوں کی نشاندہی کی ہے ، جن کی معاشی صورتحال ، فی کس آمدنی اور بے روزگاری کا تناسب ایسا ہے کہ وہاں مصر جیسے حکومت مخالف تحریکیں شروع ہو سکتی ہیں ۔
گزشتہ چند روز سے جاری حکومت مخالف مظاہروں اور ایمرجنسی کے باوجود بحرین ان گیارہ ملکوں کی فہرست میں شامل نہیں ،جہاں ماہرین کسی انقلابی تبدیلی کی پیش گوئی کر رہے ہیں ۔ بحرین میں آل بن علی نامی عرب قبیلے کے حکمران الخلیفہ خاندان کے حکومت ہے ، کل آبادی بارہ لاکھ سے کچھ ہی زیادہ ہے ، چھیاسٹھ فیصد شیعہ اور تیتیس فیصد سنی آبادی کے ساتھ بےروزگاری کا تناسب چار فیصد ہے ۔
یمن
دوسرا اہم ملک یمن ہے ، جو بے روزگاری کی چالیس فیصد شرح کے ساتھ دنیا کے پسماندہ ترین ملکوں میں سے ایک ہے ۔ تیس فیصد آبادی خوراک کی کمی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار اور بائیس لاکھ آبادی کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے ۔ یمن کے شمال اور جنوب میں باغی گروپ علیحدگی کی تحریک چلا رہے ہیں ۔ماہرین کے مطابق یہ صورتحال عرب خطے میں یمن کوالقاعدہ کے لئے نئے اراکین کی بھرتی اور اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لئے پر کشش بناتی ہے ۔انیس سو اٹھہتر سے یمن کے اقتدار پر فائز صدر علی عبداللہ صالح کے خلاف دارلحکومت صنعا میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے ، جو اس مہینے کے آغاز میں دو ہزار تیرہ میں اگلا صدارتی ا میدوار نہ بننے کی یقین دہانی کر اچکے ہیں ، جب ان کی میعاد ختم ہوگی ۔
سابق امریکی سفیر اور واشنگٹن کے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے صدر ایڈورڈ واکر کا خیال ہے کہ یمن کئی حوالوں سے ایک مشکل ملک ہے۔ اس کے کئی قبائلی اور علاقائی مسئلے ہیں ۔ اس میں بہت اہلیت بھی ہے ۔ یمنی عوام کچھ چیزوں کے بارے میں ناخوش ہیں ۔ لیکن وہ صرف اپنے صدر کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ان کے مسئلوں کو توجہ کی ضرورت ہے ، جو کہ ایک اچھا پیغام ہے۔
لیبیا
لیبیا ،جغرافیائی طور پر تیونس اور مصر کے درمیان واقع ہے ۔انیس سو انہتر سے صدر معمر قذافی کی حکومت قائم ہے ، جو اپنے بیٹے کو اپنا جانشیں بنانا چاہتے ہیں ۔ مغربی افریقی ملکوں میں بےروزگاری کی سب سے بلند شرح لیبیا میں ہے ، سماجی رابطوں کی ویب سائٹس تک کتنے لوگوں کی رسائی ہے یہ معلوم نہیں ، ماہرین لیبیا کو کسی عوامی مخالفت کے لئے زرخیز قرار دیتے ہیں ۔
مراکش
مراکش میں بادشاہت کو آئینی تحفظ حاصل ہے ، پچیس فیصد گریجویٹ بےروزگار ہیں ، بے روزگاری کا مجموعی تناسب نو اعشاریہ ایک فیصد ہے جبکہ مہنگائی کی شرح دو اعشاریہ چھ فیصد ہے ۔انٹر نیٹ کے ذریعے سماجی رابطے نوجوانوں کی زندگی کا حصہ ہیں۔ مراکش میں حکومت پہلے ہی جمہوری اصلاحات کا آغاز کر چکی ہیں اور کسی ممکنہ گڑبڑ کے جواب میں مزید اصلاحات کا اعلان کیا جا سکتا ہے ۔
اردن
اردن ، جہاں بادشاہت کو آئینی تحفظ اور محدود جمہوری حیثیت حاصل ہے ۔ مہنگائی چھ اعشاریہ ایک فیصد اور بے روزگاری تقریبا چودہ فیصد ہے ۔ اردن میں نوجوانوں کو انٹرنیٹ استعمال کرنے کی آزادی ہے اور حکومت کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے ہیں لیکن اردن کے شاہ عبداللہ نے کابینہ میں تبدیلی کر کے اور خوراک اور ایندھن کی قیمتو ں میں سرکاری سب سڈی کا اعلان کرکے صورتحال کو سنبھالا دینے کی کوشش کی ہے ۔
سعودی عرب
سعودی عرب ٴ میں مکمل بادشاہت ہے ۔ مہنگائی پانچ اعشاریہ چار فیصد ، بےروزگاری کا مجموعی تناسب دو ہزار دس میں دس فیصد تھا جبکہ نوجوانوں میں بےروزگاری کی شرح بیالیس فیصدریکارڈ کی گئی ، لیکن اس وجہ سے کوئی عوامی احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا ، عوام کو تیل کی دولت لاپروائی سے خرچ کرنے پرکچھ اختلافات ہیں ،تاہم ماہرین کے خیال میں سعودی عرب کی شیعہ آبادی اور بیالیس فیصد بے روزگار نوجوان مستقبل میں حکومت پر دباو کی وجہ بن سکتے ہیں ۔ تیس لاکھ سعودی شہریوں کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے ۔
سینٹر فار امیرکن پراگریس کے برائین کیٹولس کا خیال ہے کہ اردن رقبے کے لحاظ سے چھوٹا ملک ہے ۔ اردن کے بادشاہ کے لئے آسان تھا کہ وہ اپنی کابینہ میں تبدیلی کر کے صورتحال پر کنٹرول میں کرنے کی کوشش کرے ۔ سعودی عرب ایک مضبوط پولیس سٹیٹ ہے ۔ جہاں ہر چیز پر حکومت کا سخت کنٹرول ہے ۔ میرا نہیں خیال کہ اردن یا سعودی عرب میں تبدیلی کی کوئی ایسی تحریک عنقریب شروع ہو سکتی ہے جیسی ہم نے مصر میں
دیکھی ۔
میری لینڈ یونیورسٹی کے پروگرام آن انٹرنیشنل پالیسی ایٹی ٹیوڈ کے ڈائریکٹر سٹیون کل کہتے ہیں کہ یہ احساس کہ آزادی اور جمہوریت زیادہ ہو ، ساری عرب دنیا میں پیدا ہو رہا ہے ، لیکن الجیریا اور اردن جیسے ملکوں میں اس کا خاص امکان ہے ، یمن میں جو ہورہا ہے وہ قدرے مختلف ہے مگر اس میں کچھ مماثلت بھی ہے ۔ ہم نے ایسا بحرین میں بھی دیکھا ہے اور ہم نے ایسا کچھ دیگر خلیجی ریاستوں میں بھی دیکھ رہے ہیں ۔ جوں جوں لوگ دیکھ رہے ہیں کہ مصر میں کیا ہوا ، اس سے ان میں اعتماد پیدا ہو رہا ہے کہ وہ اس کا اظہار کر سکتے ہیں ۔ میں نے الجیریا اور اردن کا پولنگ ڈیٹا دیکھا ہے اس لئے میں زیادہ یقین سے کہ سکتا ہوں ، وہاں ایسی عدم اطمینانی ہے ، جہاں فوج نے اس خوف سے کریک ڈاون کیا ، کہ اسلامی جماعت کا زور بڑھ رہا ہے ۔ اس سے عدم استحکام بڑھا اور لوگوں کا حکومت سے بھروسہ کم ہوا ، بعض اوقات آمرانہ حکومتیں قانونی حٰیثیت حاصل کر نے کا دعوی کرتی ہیں کہ وہ عوام کی مرضی سے کام کر رہی ہیں مگر الجیریا میں صورتحال اس کے برعکس ہے ۔
ایران
ایران ۔۔۔ دنیا کی سولہویں بڑی معیشت ، تیل کی دولت سے مالامال اور نواسی فیصد تعلیم یافتہ آبادی کا حامل ہے۔ مہنگائی کی شرح تیرہ اعشاریہ پانچ فیصد ، اور بے روزگاری کی چودہ اعشاریہ چھ فیصد شرح کے ساتھ حکومت مخالف مخالف مظاہروں کا ایک دور صدر احمدی نژاد کی حکومت کے دوبارہ منتخب ہونے پر شروع ہوا تھا ،جسے سختی سے کچل دیا گیا ۔ سوشل نیٹ ورکنگ کی ویب سائٹس تک رسائی محدود ہے۔
شام
شام ۔۔۔۔۔جہاں صدر بشار الاسد کی بعث پارٹی کی حکومت ہے ۔ مہنگائی کم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ، اور بے روزگاری کا تناسب آٹھ اعشاریہ ایک فیصد ہے ۔ سوشل نیٹ ورکنگ کی ویب سائٹس تک آزادانہ رسائی ہے مگر حکومت مصر کے مقابلے میں کہیں زیادہ سخت سمجھی جاتی ہے ۔ شام کے صدر بشار الاسد کا خیال ہے کہ ایران سے دوستانہ تعلقات اور فلسطین کاز کے لئے حمایت ان کی حکومت کو محفوظ رکھے گی ۔
نیو امریکہ فاونڈیشن کے برائین فش مین کو اس بات کا یقین نہیں کہ تبدیلی کی یہ لہر پورے مشرق وسطی کو متاثر کر سکتی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ مصر میں کئی وجوہات تھیں ، ایک جبری حکومت تھی ، مصر ایک مرکزی عرب ملک تھا ، جہاں ساری دنیا کی توجہ تھی ۔ مصر میں حکومت کو لگتا تھا کہ وہ عالمی برادری کو جواب دہ ہے ۔ اور اس کا اثر ہوا، اگرچہ ہم نے حکومت کے مسلح حامیوں کو گھوڑوں اور اونٹوں پرسوار ہوکر حملے کرتے دیکھا ۔ لیکن فوج نے لوگوں پر مشین گن استعمال نہیں کی لیکن میرا نہیں خیال کہ شام یا ایران جیسے ملکوں میں یا یمن میں حکومت اتنے تحمل کا مظاہرہ کرے گی ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کھلے عام قتل کریں گے مگر وہ مصر کے مقابلے میں زیادہ سختی کر سکتے ہیں ۔ طاقت کے استعمال سے اب بھی فرق پڑتا ہے ۔ اور بدقسمتی سے ان سب ملکوں کے پاس جو عالمی برادری کے ساتھ اتنے منسلک اور جواب دہ نہیں ، ایسی تحریکوں کو کچلنے کا زیادہ موثر بندو بست ہے ۔
ان گیارہ ملکوں کی فہرست میں وینزویلا ، ویتنام ، چین اور پاکستان کے نام بھی شامل کئے گئے ہیں جہاںمہنگائی کی بلند شرح ،بڑھتی ہوئی آبادی اور بےروزگاری اور رابطے کے جدید ذرائع تک رسائی عوام کو اپنے اپنے نظام کے خلاف اٹھنے پر مجبور کر سکتی ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان گیارہ ملکوں میں سے چند کے لئے آنے والے کچھ مہینےبے حد اہم رہیں گے ۔
لیکن واشنگٹن کے ماہرین اور امریکی ویب سائٹ بزنس انسائیڈر کے تمام تر اندازے ان گیارہ ملکوں سے آنے والے اعدادو شمار اور واقعات کی روشنی میں مرتب کئے گئے ہیں ،جو ضروری نہیں کہ درست بھی ہوں ، کیونکہ بےچینی کی جس لہر کی پیشگوئی کی جا رہی ہے ، وہ کئی ایسے ملکوں میں بھی شروع ہو چکی ہے ، جن کا نام اس فہرست میں شامل نہیں ۔