بڑھتی ہوئی آبادی، موسمیاتی تبدیلیوں، غیر معیاری انفراسٹرکچر اور کئی دیگر عوامل کےباعث مشرقِ وسطیٰ میں پانی کی قلت شدت اختیار کرتی جارہی ہے اور آنے والے برسوں میں خطے کے لاکھوں باشندوں کی زندگی پانی کی کمی کے خطرے سے دوچار ہوگی۔
آبادی کے اعتبار سے مشرقِ وسطیٰ کا سب سے بڑے ملک مصر بھی پانی کی اس قلت کا شکار ہورہا ہے جہاں دارالحکومت قاہرہ کے کئی علاقوں میں پانی جنسِ نایاب کی صورت اختیار کرگیا ہے شہر کے کئی علاقوں کے رہائشی پانی خرید کر استعمال کرنے پہ مجبور ہیں۔
مصری حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ہر سال 55 ارب کیوبک میٹر پانی استعمال کیا جاتا ہے جس کی 87 فی صد مقدار دریائے نیل سے حاصل کی جاتی ہے۔
تاہم دریا کے زیریں حصے پہ آباد دیگر افریقی ممالک کی جانب سے اپنا حق مارے جانے کی شکایات کے باعث دریائی پانی کی ملکیت پر تنازعات کھڑے ہوگئے ہیں جس سے مستقبل میں مصر کو دریا سے ملنے والے پانی کی مقدار میں کمی آسکتی ہے۔
دریائے نیل کے زیریں حصے پہ آباد ایتھوپیا، کینیا، یوگینڈا اور جنوبی سوڈان کا دعویٰ ہے کہ دریا میں نیچے چھوڑا جانے والا پانی ان کی ضروریات کے لیے ناکافی ہے اور انہیں اس کی زیادہ مقدار دی جائے ۔
لیکن دریا کے اوپری حصے پہ آباد سوڈان اور مصر کا موقف ہے کہ برطانوی نوآبادیاتی دور میں طے پانے والے معاہدے کے تحت ان کا دریائے نیل کے زیادہ تر پانی پہ تصرف کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔
برطانیہ کی 'یونیورسٹی آف ایکسٹر' میں سیاسیات کے معلم عمر عاشور کا کہنا ہے کہ پانی مصر کی خارجہ اور قومی سلامتی کی پالیسی کا سب سے حساس معاملہ بن چکا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مصر پہ تین عشروں تک حکومت کرنے والے صدر حسنی مبارک کے دور ِ اقتدار میں اختیار کی گئی خارجہ پالیسی میں مصر کے جنوبی پڑوسی ملکوں کو نظر انداز کیا گیا اور خصوصاً ایتھوپیا، روانڈا، جنوبی سوڈان اور سوڈان کے ساتھ اس نوعیت کا برتاؤ کیا گیا جیسے وہ مصریوں سے کمترحیثیت کے حامل ہوں۔
پروفیسرعاشور کے بقول مصر کو اب اپنی اسی خارجہ پالیسی کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے جو ان کے بقول احساسِ کمتری و برتری کی بنیاد پر تشکیل دی گئی تھی۔
بحیرہ احمر کے دوسرے کنارے پر واقع مشرقِ وسطیٰ کے ایک اور ملک یمن کو بھی پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جہاں دارالحکومت صنعا کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے گھروں کو دیے جانے والے پانی کی فراہمی میں عدم تسلسل کے باعث انہیں اپنی ضروریات پانی کے ٹینکرز خرید کر پوری کرنا پڑتی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی ادارے 'یو این ڈی پی' کی ایک رپورٹ کے مطابق یمن میں زیرِ زمین پانی کے 21 اہم ذخائر کی سطح میں سات میٹر سالانہ کی اوسط شرح سے کمی آرہی ہے۔
پانی کی اس تیزی سے گرتی ہوئی مقدار کو دیکھتے ہوئے بعض ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آئندہ پانچ سے 10 برسوں کے دوران یمن پینے کے قابل زیرِ زمین پانی سے محروم ہوجائے گا۔
یمنی اخبار 'یمن پوسٹ' کے مدیرِ اعلیٰ حکیم المصماری کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے فراہم کیا جانے والا پانی بہ مشکل ملک کی 10 فی صد آبادی کی ضروریات پورا کرپاتا ہے۔
ان کا اصرار ہے کہ یمن میں پانی کی قلت اس تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ صنعاء پانی کے ذخائر سے محروم ہوجانے والے دنیا کا پہلا دارالحکومت بن سکتا ہے۔
یمن کے شمال میں لبنان اور شام واقع ہیں جہاں یوں تو بارشیں ہونا معمول ہے لیکن پانی ذخیرہ کرنے کا مناسب انتظام نہ ہونے کے سبب پانی کی زیادہ تر مقدار کسی استعمال میں آئے بغیر سمندر کی نذر ہوجاتی ہے۔
لبنان کی 'ناٹرے ڈیم یونیورسٹی' میں معاشیات کے پروفیسر لوئیس ہوبیکا کا کہنا ہے کہ پانی کے کم قیمت ہونے کے سبب بھی علاقے کے لوگوں کو اس نعمت کی قدر نہیں اور وہ اس کا بے جا استعمال کرتے ہیں۔
گزشتہ ماہ شام میں ہونے والی ایک اقتصادی کانفرنس میں شام کے وسیع علاقے میں پانی کی قلت کے سبب پیدا ہونے والے زرعی بحران کو ترک حکومت کی جانب سے تعمیر کیے جانے والے ڈیموں کا نتیجہ قرار دیا گیا تھا جن سے، کانفرنس کے شرکا کے مطابق، شام اور عراق کو پانی کی فراہمی میں کمی آئی ہے۔
پروفیسر ہوبیکا کے مطابق خطے کے بیشتر ممالک کے درمیان گرم جوشی پہ مبنی تعلقات نہ ہونے اور سیاسی کشیدگیوں کے باعث بھی پانی کا یہ بحران سنگین صورت اختیار کر رہا ہے۔
ان کے بقول خطے میں پانی کی وافر مقدار موجود ہے لیکن اس کی مناسب تقسیم اور اس حوالے غیر ضروری تنازعات سے گریز کی حکمتِ عملی موجود نہ ہونے کے باعث پانی خطے میں پیدا ہونے والے تنازعات کی ایک اہم بنیاد بنتا جارہا ہے۔
پروفیسر ہوبیکا کے مطابق لبنان کے 'دریائے لیطانی' کے پانی کی ملکیت پہ لبنان اور اسرائیل کے تنازع کی تاریخ خاصی پرانی ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ خطے کے ممالک کے درمیان پانی کے مسئلے پہ اختلافات کتنے گہرے ہیں اور ان اختلافات کے کسی بڑے بحران کی صورت اختیار کرلینے کے امکانات کتنے وسیع ہیں۔