واشنگٹن —
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان پائیدار امن کے مذاکرات، دو برس سے زیادہ عرصے سے معطل ہیں۔ ستمبر 2010ء میں امن مذاکرات اس وقت ختم ہو گئے جب اسرائیل نے عارضی تعطل کی مدت گزرنے کے بعد بستیوں کی تعمیر دوبارہ شروع کر دی۔ فلسطینی عہدے دار کہتے ہیں کہ وہ اس وقت مذاکرات دوبارہ شروع نہیں کریں گے جب تک کہ مقبوضہ علاقوں میں بستیوں کی تعمیر روکی نہیں جاتی۔ اسرائیل نے بستیوں کی تعمیر منجمد کرنے سے انکار کر دیا ہے، اور پیشگی شرائط کے بغیر مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے کہا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ امن کے عمل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کی فلسطینی قیادت کے درمیان تقسیم ہے۔ مغربی کنارے پر فلسطینی اتھارٹی کا کنٹرول ہے جب کہ غزہ کی پٹی عسکریت پسند تنظیم حماس کے کنٹرول میں ہے۔ اسرائیل اور امریکی محکمۂ خارجہ کی نظر میں حماس دہشت گرد تنظیم ہے۔
امریکہ کے سابق نیشنل سکیورٹی اڈوائزربرینٹ سکوکرافٹ، صدر جیرالڈ فورڈ اور جارج ہربرٹ واکر بش کے تحت کام کر چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فلسطینیوں کو متحدہ محاذ پیش کرنا چاہیئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اگر حماس کو فتح کے ساتھ ملنے، اور صحیح معنوں میں امن کے عمل میں شامل ہونے کے لیے آمادہ نہیں کیا جا سکتا، تو پھر شاید دو ریاستوں والے حل کو ترک کرنا پڑے جو سب کے لیے تباہ کن ہو گا۔ یہ خیال کہ دو ریاستوں والا حل ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے، غلطی ہو گی۔‘‘
گزشتہ نومبر میں، حماس اور اسرائیل کے درمیان ایک ہفتے تک لڑائی ہوئی۔ اس عسکریت پسند گروپ نے اسرائیل پر سینکڑوں راکٹ پھینکے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پر ہوائی حملے کیے۔ یہ جنگ بالآخر مصر کی کوششوں سے ختم ہو گئی۔
صدر بُش کے دور میں اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے سفیر جان بولٹن کہتے ہیں کہ اس لڑائی سے حماس اور ایران کو فائدہ ہوا۔ ان کے مطابق ’’جنگ بندی کے بعد حماس زیادہ طاقتور بن کر اُبھری۔ انھوں نے دنیا کو دکھا دیا کہ وہ اسرائیل کی بالا دستی تسلیم نہیں کریں گے۔ اور ایران بھی زیادہ طاقتوربن کر ابھرا ہے۔ جس چیز کی بہت سے لوگوں کو توقع تھی یا جس کا اندیشہ تھا، کہ وہ غزہ کی پٹی میں حماس کے ہاتھوں میں میزائل دے سکتےہیں، اور یہ میزائل اسرائیل میں یروشلم اور تل ابیب جیسے آبادی کے مراکز تک پہنچ سکتے ہیں۔‘‘
جہاں تک فتح کا تعلق ہے، گزشتہ نومبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے صدر عباس کو بین الاقوامی سفارتی کامیابی کا لاجواب موقع فراہم کیا جب فلسطین کو مکمل رکن ملک کا تو نہیں لیکن ایک مبصر ملک کا درجہ عطا کیا۔ یہ وہی حیثیت ہے جو ویٹیکن کو حاصل ہے۔
جان بولٹن نے کہا کہ ’’اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے یہ تخیل کی اڑان تھی ۔ فلسطین نام کی کوئی مملکت موجود نہیں ہے۔ لہٰذا جنرل اسمبلی کی اکثریت کے کہنے سے، کوئی مملکت وجود میں نہیں آئے گی۔ لیکن اگرچہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن اس قرار دا د کے اہم سیاسی مضمرات ہو سکتے ہیں، کیوں کہ فلسطینی اب اپنے مملکت کے درجے کو بین الاقوامی قانون میں لے جا سکتے ہیں، وہ عالمی عدالتِ انصاف میں جا سکتے ہیں، وہ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں جا سکتے ہیں، وہ بہت سے معاہدوں میں شامل ہو سکتے ہیں، اور اپنی رکنیت کو سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس اقدام کے نتائج ضرور بر آمد ہوں گے۔‘‘
ماہرین میں اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا فتح کی سفارتی جیت اور حماس کی زیادہ طاقتور پوزیشن سے امن کے معطل عمل پر کوئی اثر پڑے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک بات یقینی ہے، اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے امریکہ کو زیادہ سرگرمی سے حصہ لینا چاہیئے ۔
لیکن کلنٹن انتظامیہ میں امریکی وزیرِ دفاع ولیم کوہن کہتے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ ایک مسئلہ ہے۔ ان کے مطابق ’’سچی بات یہ ہے کہ امریکہ کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ غیر جانبدار ثالث نہیں ہے کیوں کہ اسرائیل کی ساتھ امریکہ کی وابستگی بہت مضبوط ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ بہت سے فلسطینیوں کی نظر میں، ایک دیانتدار ثالث کے لیے یہ رویہ منصفانہ یا غیر جانبدارانہ نہیں ہے۔‘‘
کوہن کہتے ہیں کہ اس کے باوجود، صرف امریکہ ہی ایسا ملک ہے جو ایک دیانتدار بروکر کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’صرف ہم ہی یہ کردار ادا کر سکتے ہیں کیوں کہ اسرائیل کے نقطۂ نظر سے، انہیں امریکہ پر پورا اعتماد ہے اور اس کا جواز موجود ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں فلسطینیوں سے مسلسل رابطے میں رہنا چاہیئے اور ان سے کہنا چاہیئے کہ ہمارا یہ عزم برقرار ہے کہ دو ریاستوں والے حل کے حصول میں مدد دی جائے ۔ اور اگر ہم اس رول کو ادا کرنا نہیں چاہتے، تو پھر ظاہر ہے کہ ہم کامیاب مذاکرات میں مدد نہیں دے سکیں گے۔‘‘
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ صدر براک اوباما کو اپنی صدارت کی دوسری مدت کے دوران، مشرقِ وسطیٰ میں امن کے عمل کو زندہ کرنے کا منفرد موقع ملے گا۔ لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس معاملے میں کوئی بھی کارروائی اسرائیل میں پارلیمانی انتخابات کے بعد ہی ہوگی۔
ماہرین کہتے ہیں کہ امن کے عمل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کی فلسطینی قیادت کے درمیان تقسیم ہے۔ مغربی کنارے پر فلسطینی اتھارٹی کا کنٹرول ہے جب کہ غزہ کی پٹی عسکریت پسند تنظیم حماس کے کنٹرول میں ہے۔ اسرائیل اور امریکی محکمۂ خارجہ کی نظر میں حماس دہشت گرد تنظیم ہے۔
امریکہ کے سابق نیشنل سکیورٹی اڈوائزربرینٹ سکوکرافٹ، صدر جیرالڈ فورڈ اور جارج ہربرٹ واکر بش کے تحت کام کر چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فلسطینیوں کو متحدہ محاذ پیش کرنا چاہیئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اگر حماس کو فتح کے ساتھ ملنے، اور صحیح معنوں میں امن کے عمل میں شامل ہونے کے لیے آمادہ نہیں کیا جا سکتا، تو پھر شاید دو ریاستوں والے حل کو ترک کرنا پڑے جو سب کے لیے تباہ کن ہو گا۔ یہ خیال کہ دو ریاستوں والا حل ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے، غلطی ہو گی۔‘‘
گزشتہ نومبر میں، حماس اور اسرائیل کے درمیان ایک ہفتے تک لڑائی ہوئی۔ اس عسکریت پسند گروپ نے اسرائیل پر سینکڑوں راکٹ پھینکے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پر ہوائی حملے کیے۔ یہ جنگ بالآخر مصر کی کوششوں سے ختم ہو گئی۔
صدر بُش کے دور میں اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے سفیر جان بولٹن کہتے ہیں کہ اس لڑائی سے حماس اور ایران کو فائدہ ہوا۔ ان کے مطابق ’’جنگ بندی کے بعد حماس زیادہ طاقتور بن کر اُبھری۔ انھوں نے دنیا کو دکھا دیا کہ وہ اسرائیل کی بالا دستی تسلیم نہیں کریں گے۔ اور ایران بھی زیادہ طاقتوربن کر ابھرا ہے۔ جس چیز کی بہت سے لوگوں کو توقع تھی یا جس کا اندیشہ تھا، کہ وہ غزہ کی پٹی میں حماس کے ہاتھوں میں میزائل دے سکتےہیں، اور یہ میزائل اسرائیل میں یروشلم اور تل ابیب جیسے آبادی کے مراکز تک پہنچ سکتے ہیں۔‘‘
جہاں تک فتح کا تعلق ہے، گزشتہ نومبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے صدر عباس کو بین الاقوامی سفارتی کامیابی کا لاجواب موقع فراہم کیا جب فلسطین کو مکمل رکن ملک کا تو نہیں لیکن ایک مبصر ملک کا درجہ عطا کیا۔ یہ وہی حیثیت ہے جو ویٹیکن کو حاصل ہے۔
جان بولٹن نے کہا کہ ’’اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے یہ تخیل کی اڑان تھی ۔ فلسطین نام کی کوئی مملکت موجود نہیں ہے۔ لہٰذا جنرل اسمبلی کی اکثریت کے کہنے سے، کوئی مملکت وجود میں نہیں آئے گی۔ لیکن اگرچہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن اس قرار دا د کے اہم سیاسی مضمرات ہو سکتے ہیں، کیوں کہ فلسطینی اب اپنے مملکت کے درجے کو بین الاقوامی قانون میں لے جا سکتے ہیں، وہ عالمی عدالتِ انصاف میں جا سکتے ہیں، وہ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں جا سکتے ہیں، وہ بہت سے معاہدوں میں شامل ہو سکتے ہیں، اور اپنی رکنیت کو سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس اقدام کے نتائج ضرور بر آمد ہوں گے۔‘‘
ماہرین میں اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا فتح کی سفارتی جیت اور حماس کی زیادہ طاقتور پوزیشن سے امن کے معطل عمل پر کوئی اثر پڑے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک بات یقینی ہے، اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے امریکہ کو زیادہ سرگرمی سے حصہ لینا چاہیئے ۔
لیکن کلنٹن انتظامیہ میں امریکی وزیرِ دفاع ولیم کوہن کہتے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ ایک مسئلہ ہے۔ ان کے مطابق ’’سچی بات یہ ہے کہ امریکہ کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ غیر جانبدار ثالث نہیں ہے کیوں کہ اسرائیل کی ساتھ امریکہ کی وابستگی بہت مضبوط ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ بہت سے فلسطینیوں کی نظر میں، ایک دیانتدار ثالث کے لیے یہ رویہ منصفانہ یا غیر جانبدارانہ نہیں ہے۔‘‘
کوہن کہتے ہیں کہ اس کے باوجود، صرف امریکہ ہی ایسا ملک ہے جو ایک دیانتدار بروکر کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’صرف ہم ہی یہ کردار ادا کر سکتے ہیں کیوں کہ اسرائیل کے نقطۂ نظر سے، انہیں امریکہ پر پورا اعتماد ہے اور اس کا جواز موجود ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں فلسطینیوں سے مسلسل رابطے میں رہنا چاہیئے اور ان سے کہنا چاہیئے کہ ہمارا یہ عزم برقرار ہے کہ دو ریاستوں والے حل کے حصول میں مدد دی جائے ۔ اور اگر ہم اس رول کو ادا کرنا نہیں چاہتے، تو پھر ظاہر ہے کہ ہم کامیاب مذاکرات میں مدد نہیں دے سکیں گے۔‘‘
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ صدر براک اوباما کو اپنی صدارت کی دوسری مدت کے دوران، مشرقِ وسطیٰ میں امن کے عمل کو زندہ کرنے کا منفرد موقع ملے گا۔ لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس معاملے میں کوئی بھی کارروائی اسرائیل میں پارلیمانی انتخابات کے بعد ہی ہوگی۔