ایسے میں جب عراق میں داعش کو یکے بعد دیگرے شکست کا سامنا ہے، کیا وہ اپنی پیش رو، القاعدہ میں ضم ہوجائے گی؟
اس بارے میں چمہ گوئیاں اُس وقت سامنے آئیں جب عراقی نائب صدر ایاد علوی نے 'رائٹرز' کو بتایا کہ اُنھیں عراقی اور علاقائی ذرائع سے یہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ ''دونوں شدت پسند گروپوں کے آپس میں ممکنہ اتحاد کے لیے گفت و شنید کا آغاز ہوگیا ہے''۔
داعش کے راہنما ابو بکر البغدادی اور القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کے حوالے سے اُنھوں نے کہا کہ ''بغدادی کی نمائندگی کرنے والے پیغام رساں اور ظواہری کے نمائندوں کے درمیان اِس بات پر آپس میں گفتگو اور مکالمہ جاری ہے''۔
تاہم، تجزیہ کار کہتے ہیں کہ دونوں گروپوں کی آپس میں قربت سے قبل ضرورت اس بات کی ہوگی کہ نظریاتی اور حربی اختلافات اور دونوں راہنمائوں کے مابین برسوں کی مخاصمت دور ہو۔
مائلو کمرفورڈ لندن کے 'سینٹر آن رلیجن اینڈ جیوپولٹکس' کے ایک تجزیہ کار ہیں۔
اُنھوں نے اس ہفتے 'نیوزویک' رسالے میں اپنی ایک تحریر میں کہا ہے کہ ''مکالمہ ایک بات ہے، جب کہ ممکنہ اتحاد کا معاملہ مختلف چیز ہے''۔
محبت کا عنصر نہ دارد
'یہودیوں کا جہاد' کے عنوان سے داعش کے حالیہ شمارے میں شائع ہونے والی ایک تحریر کے مطابق، ''دونوں جہادی گروہوں میں محبت کا عنصر غائب ہو چکا ہے''؛ جب کہ ایمن الظواہری 2015ء میں ابو بکر البغدادی کی کھل کر مذمت کر چکے ہیں۔ اُنھوں نے داعش کے راہنما کو جہادی نصب العین کے مخالف اور ایک فتنہ (نااتفاقی کی علامت) قرار دے چکے ہیں''۔
داعش کی بنیاد سنہ 2004 میں عراق میں القاعدہ کے ایک دھڑے کے طور پر رکھی گئی، جس تحریک کی قیادت اردن کے جہادی، ابو مصحب الزرقوی کیا کرتے تھے۔ جب 2014ء میں عراق اور شام میں داعش کا اثر و رسوخ بڑھنے لگا، تب سے دونوں گروہوں کا کئی بار آپس میں ٹکرائو ہوا، جب کہ متعدد بار جہادی نصب العین کی قیادت کا آپسی مقابلہ جاری رہا جو خونریزی کی صورت میں نمودار ہوا۔
کئی برسوں سے دولت اسلامیہ القاعدہ کے ساتھیوں کو اپنی جانب متوجہ کر رہی ہے۔
براک منڈل سوہن پنسلوانیا میں ہیورفورڈ کے مقام پر قائم 'ہیورفورڈ کالج' میں سیاسی سائنس کے معاون پروفیسر ہیں۔ اُنھوں نے جنوری میں 'بروکنگز انسٹی ٹیوشن' میں منقعدہ ایک مذاکرے میں بتایا کہ ''داعش القاعدہ سے منسلک گروہوں کو وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے دبائو ڈال رہی ہے''۔
اُنھوں نے بتایا کہ ''اب تک وہ اُن کی وفاداریاں تبدیل کرانے میں ناکام رہی ہے، لیکن اتنا ضرور ہوا ہے کہ اُس کی شاخوں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں؛ جب کہ القاعدہ ارکان کے چھوٹے گروپوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے''۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ابھی تک دونوں کے مابین بنیادی مذہبی اختلافات جاری ہیں۔
کمرفورڈ کے مطابق، ''ظواہری نے داعش کے وجود پر ہی نکتہ چینی کی ہے، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ جس طرح سے بغدادی خلیفہ بنے ہیں، اُن کا چنائو خلافت کی روایت کے منافی ہے''۔
بقول اُن کے، ''اپنے کئی ایک بیانات میں، ظواہری نے اُن مذہبی بنیادوں کو غلط قرار دیا ہے جس سلسلے میں دولت اسلامیہ جہادی برادری میں اپنے وجود کو تسلیم کرانے کی کوشاں ہے''۔