پاکستان کی فوج نے گزشتہ ہفتے عسکری تنصیبات اور املاک پر حملوں میں ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ سمیت ملک کے متعلقہ قوانین کے تحت مقدمات چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔
فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق پیر کو آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیرِ صدارت خصوصی کور کمانڈر کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں گزشتہ چند دنوں کے دوران ملک میں امن و امان کی صورتِ حال کا جائزہ لیا گیا۔
اعلامیے کے مطابق کور کمانڈر کانفرنس کو فوجی تنصیبات اور املاک پر منظم حملوں سے متعلق بریفنگ دی گئی۔ بیان میں کہا گیا کہ فوجی اور نجی املاک پر سیاسی مقاصد کے تحت ہونے والے حملے ادارے کی ساکھ کو متاثر کرنے اور اشتعال انگیزی کے لیے کیے گئے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے نو مئی کو سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد پاکستان کے مختلف شہروں میں ہونے والے احتجاج کے دوران کئی مشتعل افراد نے فوجی تنصیبات پر بھی دھاوا بول دیا تھا جن میں راولپنڈی میں جی ایچ کیو اور لاہور کے کور کمانڈر ہاؤس سمیت دیگر تنصیبات اور املاک بھی شامل تھیں۔
پاکستان تحرِیک انصاف نے پر تشدد واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات کی تردید کی ہے۔ تاہم اب تک پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں اور کارکنان کو نقضِ امن اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا جاچکا ہے۔
آئی ایس پی آر کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ناقابلِ تردید ثبوتوں کی بنیاد پر افواجِ پاکستان ان حملوں کے منصوبہ سازوں، اشتعال انگیزی کرنے والوں اور ان میں ملوث افراد اور مددگاروں سے آگاہ ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ کور کمانڈرز کانفرنس کے فورم نے فوجی تنصیبات و آلات پر حملوں میں ملوث افراد کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ سمیت تمام متعلقہ قوانین کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عزم کا اظہار کیا ہے۔
آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ کانفرنس میں اس عزم کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ فوجی تنصیبات پر حملوں میں کسی بھی طرح ملوث افراد کے لیے مزید تحمل کا مظاہر نہیں کیا جائے گا۔
تحریکِ انصاف سربراہ عمران خان گزشتہ ہفتے چیف جسٹس کی سربراہی میں پرتشدد واقعات اور فوجی تنصیبات پر حملوں کے واقعات کی تحقیقات کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ یہ حملے اور پرتشدد کارروائیاں کسی سوچی سمجھی سازش کے تحت کیے گئے تھے۔
اس سے قبل عمران خان نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کی حراست کے دوران تشدد کی آڑ میں "یہ خود ہی جج، جیوری اور جلاد بن بیٹھے ہیں! منصوبہ اب یہ ہے کہ بشریٰ بیگم کو زندان میں ڈال کر مجھے اذیّت پہنچائیں اور بغاوت کے کسی قانون کی آڑ لے کر مجھےآئندہ دس برس کے لیے قید کر دیں۔"
پاکستان کی حکومت یا وزارتِ دفاع نے تاحال فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت قانونی کارروائی پر کوئی موقف نہیں دیا ہے۔ تاہم انسانی حقوق کے کارکنان اور قانونی ماہرین سویلینز کے خلاف عسکری قوانین کے تحت کارروائی پر تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔