عراق میں نمازِ جمعہ کے دوران ایک مسجد پر کیے جانےو الے حملے اور فائرنگ کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
حملہ عراق کے صوبے دیالہ کے ایک قصبے کی مسجد میں کیا گیا جس کا تعلق سنی مسلک سے بتایا جاتا ہے۔ مقامی حکام کا کہنا ہے کہ حملے میں علاقے میں سرگرم ایک شیعہ ملیشیا ملوث ہے۔
حملے کے بعد لاشوں اور زخمیوں کو قصبے سے 60 کلومیٹر دور واقع صوبائی دارالحکومت بعقوبہ کے اسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔ حکام کے مطابق حملے کے بعد کم از کم 68 لاشیں بعقوبہ لائی گئی ہیں۔
علاقے سے منتخب رکنِ پارلیمان ناہیدہ الدیانی نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ حملے کے وقت 'امام واعظ مسجد' میں ڈیڑھ سو سے زائد نمازی موجود تھے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ مسجد پر حملہ کرنے والوں کا تعلق مقامی شیعہ ملیشیا سے تھا جنہوں نے نماز کے دوران مسجد میں داخل ہوکر نمازیوں پر مشین گنوں سے فائرنگ کردی۔
رکنِ پارلیمان کے مطابق فائرنگ کی آواز سن کر مسجد پہنچنے والی علاقے کی بعض خواتین کو بھی حملہ آوروں نے قتل کردیا۔
علاقے میں تعینات ایک فوجی افسر کے مطابق مسجد پر حملہ علاقے میں سرگرم شیعہ ملیشیا کے ایک رہنما کے گھر کے باہر ہونے والے بم دھماکے کے جواب میں کیا گیا جس میں ملیشیا کے تین جنگجو ہلاک ہوگئے تھے۔
'رائٹرز' کے مطابق عراق کے صوبے بعقوبہ میں شیعہ ملیشیائیں ماضی میں بھی اقلیتی سنی افراد اور آبادیوں پر اس نوعیت کے حملوں میں ملوث رہی ہیں۔
ایک مقامی سنی قبائلی رہنما سلمان الجبوری نے مسجد پر حملے کا بدلہ لینے کی دھمکی دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ علاقے کے تمام سنی قبائل کو "انتقام کے لیے تیار رہنے" کا پیغام بھیج دیا گیا ہے۔
واقعے کے بعد عراق کے دو اہم ترین سنی سیاست دانوں – نائب وزیرِاعظم صالح المطلق اور عراقی پارلیمان کے اسپیکر سالم الجبوری - نے بطور احتجاج نئی حکومت کے قیام کے لیے شیعہ جماعتوں کے ساتھ بغداد میں جاری مذاکرات معطل کردیے ہیں۔
خدشہ ہے کہ اس تازہ واقعے کے بعد عراق میں جاری فرقہ وارانہ کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا جو پہلے ہی ہزاوں افراد کی جانیں نگل چکی ہے۔