امریکہ میں سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جب کہ منیا پولس کی سٹی کونسل نے محکمۂ پولیس کو ختم کرنے اور اسے از سرِ نو تشکیل دینے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔
سیاہ فام امریکی شہری جارج فلائیڈ کی پولیس تحویل میں ہلاکت کے خلاف گزشتہ دو ہفتوں سے ملک بھر میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔ مظاہرین کی جانب سے پولیس اصلاحات کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔
اتوار کی شب منیا پولس شہر کی کونسل میں محکمۂ پولیس کی تعمیرِ نو کے حق میں کونسلرز کی بڑی تعداد نے ووٹ دیا۔
کونسل کی صدر لیسا بینڈر نے امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم فیصلہ کر چکے ہیں کہ محکمۂ پولیس کو ختم کر دیا جائے اور اس کی جگہ ایسا ماڈل پیش کیا جائے جو حقیقی معنوں میں کمیونٹی کا تحفظ یقینی بنائے۔
تاہم منیا پولس کے میئر جیکب فرے محکمۂ پولیس کو ختم کرنے کے مخالف ہیں۔ انہوں نے خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ نسل پرستی پر مبنی نظام میں اصلاحات کے حامی ہیں البتہ پورے محکمے کو ختم نہیں کرنا چاہیے۔
نیویارک کے میئر بل دی بلاسیو نے اتوار کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ سٹی پولیس کے بجٹ میں کٹوتی کریں گے اور وہ فنڈ سماجی خدمات کے شعبے پر لگائیں گے۔
جارج فلائیڈ کی ہلاکت اور اس کے نتیجے میں ہونے والے ملک گیر احتجاج کے باوجود ٹرمپ حکومت نے اب تک محکمۂ پولیس سے متعلق مرکزی پالیسی میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے۔ البتہ صدر ٹرمپ کی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذمہ داران سے پیر کو ایک ملاقات شیڈول ہے جس میں امکان ہے کہ حالیہ مظاہروں اور ان سے پیدا ہونے والی صورتِ حال پر بات چیت ہوگی۔
دوسری جانب کانگریس کے سیاہ فام ارکان نے اعلان کیا ہے کہ وہ ملک میں پولیس اہلکاروں کے احتساب کا عمل مزید بہتر بنانے کے لیے پیر کو ایوانِ نمائندگان میں ایک مسودۂ قانون پیش کریں گے۔
سینیٹر مٹ رومنی بھی مظاہرے میں شامل
جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے خلاف واشنگٹن، نیویارک اور فلوریڈا سمیت دیگر شہروں میں اتوار کو بھی بڑی تعداد میں شہری سڑکوں پر آئے اور احتجاج کیا۔ مظاہرین نے پولیس اصلاحات اور سماجی انصاف کا بھی مطالبہ کیا۔
مظاہروں میں ری پبلکن جماعت سے تعلق رکھنے والی کئی نامور شخصیات نے بھی شرکت کی اور سیاہ فام افراد کے حق میں آواز بلند کی۔
ریاست یوٹاہ سے ری پبلکن سینیٹر مٹ رومنی وائٹ ہاؤس کی طرف مارچ کرنے والے مظاہرے میں شامل ہوئے۔ انہوں نے مظاہرے کے دوران لی گئی اپنی تصاویر بھی احتجاجی تحریک کے مقبول نعرے 'بلیک لائیوز میٹر' کے پیغام کے ساتھ ٹوئٹ کیں۔
سابق فوجی افسران کی ٹرمپ پر تنقید
امریکی فوج کے سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف اور سابق وزیرِ خارجہ کولن پاول نے میں کہا ہے کہ صدر ٹرمپ آئین کے برخلاف اقدامات کر رہے ہیں۔
اتوار کو ایک بیان کولن پاول نے کہا کہ صدر ٹرمپ دنیا بھر میں امریکہ کی پوزیشن کمزور کر رہے ہیں اس لیے وہ نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن کی حمایت کریں گے۔
سابق جوائنٹ چیفس آف اسٹاف مارٹن ڈیمپسی نے 'اے بی سی' نیوز نیٹ ورک سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں فوج کو استعمال کرتے ہوئے بے حد احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پانچ عشرے پہلے جب ویت نام کی جنگ کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے، اس وقت فوج پر عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی تھی اور پھر اسے بحال کرنے میں ایک عرصہ لگ گیا تھا۔
ادھر سابق امریکی وزیرِ خارجہ کونڈلیزا رائس نے بھی کہا ہے کہ وہ پرامن مظاہرین کے خلاف فوج کے استعمال کی کھل کر مخالفت کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ جنگ کا میدان نہیں جہاں فوج کو اتار دیا جائے۔
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے واشنگٹن میں ریزرو فوجی دستے 'نیشنل گارڈز' تعینات کیے تھے۔ تاہم شدید احتجاج اور تنقید کے بعد انہوں نے اتوار کو دارالحکومت سے نیشنل گارڈز کو واپس جانے کا حکم دے دیا تھا۔