حکومتِ پاکستان نے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے مبینہ دباؤ پر کرونا وبا کے دوران اربوں روپے اخراجات سے متعلق آڈٹ رپورٹ جاری کر دی ہے جس میں 40 ارب روپے سے زائد کی بے ضابطگیوں کی نشان دہی ہوئی ہے۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کی مطابق نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی طرف سے خرچ کیے گئے 22.8 ارب روپ میں سے 4.8 ارب روپے، وزارتِ دفاع کے 3.2 ارب روپوں میں سے ڈیڑھ ارب روپے کی بے ضابطگی ہوئی۔
بے نظیر انکم اسپورٹ پروگرام میں 133 ارب روپے میں سے 25 ارب روپے کی رقم پر سوالات اُٹھائے گئے ہیں۔
رواں برس 23 نومبر کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران مشیر خزانہ شوکت ترین نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے تحت جو اقدامات کرنا ہوں گے ان میں جی ایس ٹی پر استثنیٰ کا خاتمہ، پیٹرولیم لیوی پر ہر ماہ چار روپے اضافہ، اسٹیٹ بینک قوانین میں ترمیم، کووڈ کے حوالے سے آڈیٹر جنرل کی رپورٹ سامنے لانا شامل تھا۔
اس اعلان کے بعد جمعے کی شام وزارتِ خزانہ کی طرف سے کرونا اخراجات کی آڈٹ رپورٹ ویب سائٹ پر جاری کر دی گئی۔
دو سو دس صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ آڈیٹر جنرل کرونا اخراجات کی مد میں 354 ارب روپے سے زائد کے اخراجات کا آڈٹ کرنا چاہتے تھے۔ لیکن انہیں مکمل ریکارڈ نہیں دیا گیا۔ جو ریکارڈ آڈیٹر جنرل کو دیا گیا اس کے مطابق 40 ارب روپے کی بے ضابطیاں سامنے آئی ہیں۔
آڈیٹر جنرل کے اعتراضات کن باتوں پر ہیں؟
آڈیٹر جنرل نے مختلف بدانتظامیوں کی نشان دہی کی ہے جن میں کرونا کے لیے حکومت مشینری کے تیار نہ ہونے، غلط خریداری، خریداری میں تاخیر، ضرورت کا اندازہ لگائے بغیر خریداری، کمزور معاشی کنٹرول، تمام ریکارڈ کو درست انداز میں نہ رکھنا اور آڈٹ حکام کو تمام ریکارڈ نہ دینا شامل ہے۔
رپورٹ میں حکومتی ٹیکسز کی عدم ادائیگی، ویئر ہاؤسز کی درست مینجمنٹ نہ کرنا، سپلائرز کو ایڈوانس ادائیگیاں، آلات کی فراہمی کا ریکارڈ نہ ہونا، ضمانتوں کے بغیر سپلائرز کو ایڈوانس ادائیگیاں، بے نظیر انکم پروگرام میں ریکارڈ نہ ہونے کے باعث ایک ہی خاندان میں کئی افراد کو ادائیگیاں، انشورنس رکھنے والے افراد کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی ادائیگیاں، سرکاری ملازمین کو بے نظیر پروگرام کے تحت ادائیگیاں، جعلی بائیو میٹرک کے ذریعے ادائیگیوں کا بھی انکشاف کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں یوٹیلیٹی اسٹورز کی طرف سے فلور ملز کی غیر قانونی پری کوالیفکیشن، اخراجات کے لیے نظام کی خلاف ورزیاں، یوٹیلٹی اسٹورز کی طرف سے سبسڈی کے لیے کوئی نظام نہ ہونا، پیپرا رولز کی خلاف ورزیاں، فلور ملوں کو کوٹہ سے زیادہ گندم کی فراہمی اور بے نظیر پروگرام کے تحت درست نظام نہ ہونے کی وجہ سے ان رول ہونے والے 13 لاکھ سے زائد لوگوں کو کوئی بھی رقم نہ مل سکی۔
فنڈز کی تقسیم
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق 24 مارچ 2020 کو وزیرِ اعظم عمران خان نے کرونا وبا سے نمٹنے کے لیے 1240 ارب روپے کے پروگرام کی منظوری دی جس کے تحت ایمرجنسی ریسپاس، شہریوں کو ریلیف اور معیشت و کاروبار کو اسپورٹ دینے کے لیے یہ رقم خرچ ہونا تھی۔
اس 1240 ارب روپے میں ایمرجنسی ریلیف کے لیے 190 ارب، بزنس اور اکانومی کے لیے 480 ارب اور شہریوں کو ریلیف دینے کے لیے 570 ارب روپے رکھے گئے تھے۔ 30 جون 2020 تک 354 ارب روپے سے زائد کی رقم جاری کی گئی۔
ایمرجنسی ریسپانس کی رقم 190 ارب روپے
حکومت کی طرف سے ایمرجنسی ریلیف کے لیے مختص 190 ارب روپے میں سے 25 ارب این ڈی ایم اے، 50 ارب میڈیکل آلات اور میڈیکل سے متعلق افراد کے لیے تھے جب کہ سو ارب روپے ایمرجنسی ریلیف فنڈ اور 15 ارب روپے فوڈ اینڈ ہیلتھ آئٹمز پر ٹیکس میں کمی کی صورت میں جاری کیے گئے۔
این ڈی ایم اے کو 25 ارب روپے کے ساتھ 7.9 ارب روپے سپلیمنٹری گرانٹ کی صورت میں بھی دیے گئے۔
اس طرح کل 33.24 ارب روپے این ڈی ایم اے کو جاری کیے گئے جن میں سے 22.823 ارب روپے این ڈی ایم اے کی طرف سے میڈیکل آلات یعنی وینٹیلیٹرز، اسکینرز، آکسی میٹرز، کووڈ ٹیسٹ کٹس، آکسیجن سلنڈرز، تھرمل گنز، گلوز، گاؤنز اور اسی طرح کی اشیا پر خرچ ہوئے۔
حکومت کی طرف سے ملک بھر میں طبی آلات کی خریداری کے لیے 50 ارب روپے میں سے 8.5 ارب روپے جاری ہوئے۔ ان 8.5 ارب روپوں میں سے 8.1 ارب روپے ڈیفنس سروسز کو دے دیے گئے جن میں پاکستان آرمی نے سات ارب، ایئرفورس نے 70 کروڑ اورپاکستان نیوی نے 40 کروڑ روپے خرچ کیے۔ باقی 480 ملین روپے وزارتِ صحت کو جاری کردیے گئے۔
شہریوں کے لیے اعلان کردہ 350 ارب روپے میں سے 136 ارب روپے جاری ہوئے جن میں سے 94 ارب روپے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو دیے گئے۔ اس رقم سے ایک کروڑ 31 لاکھ 62 ہزار695 افراد کو رقم فراہم کی گئی۔
یوٹیلٹی اسٹورز کے لیے اعلان کردہ 50 ارب میں سے 10 ارب روپے کی رقم جاری کی گئی۔ بجلی کے بلوں کے حوالے سے پاور ڈویژن کو 15 ارب روپے ملے۔
این ڈی ایم اے کے اخراجات میں بے ضابطگیاں
رپورٹ کے مطابق آڈیٹرز نے این ڈی ایم اے کے ذریعے 42.5 ملین روپے کی لاگت سے ریسورس مینجمنٹ سسٹم کی تنصیب کی وجہ سے غلط خریداری کی۔
زیادہ نرخوں پر وینٹی لیٹرز کی خریداری کی وجہ سے سرکاری خزانے کو ایک ملین ڈالر کا نقصان ہوا اور چین نے 250 بستروں پر مشتمل آئسولیشن اسپتال اور انفیکشن ٹریٹمنٹ سینٹر کی تعمیر کے لیے چار ملین ڈالر کا عطیہ دیا لیکن یہ رقم کبھی استعمال نہیں ہوئی۔ وینٹی لیٹرز کی خریداری کی وجہ سے چینی فرموں کو زائد ادائیگی کے معاملات سامنے آئے۔
این ڈی ایم اے نے حاجی کمپلیکس راولپنڈی کی تزئین و آرائش، کراچی میں قرنطینہ کی سہولیات اور نیشنل کنٹرول روم کے قیام کے لیے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کو کی گئی ادائیگیوں کے خلاف 690 ملین روپے کی ایڈوانس ادائیگی کا کوئی حساب نہیں دیا۔
این ڈی ایم اے نے سپلائی کرنے والی فرموں کو 2.7 ارب اور 8.3 ملین ڈالر کا نقصان پہنچانے والے ہرجانے کی وصولی کے لیے بھی کوئی قدم نہیں اٹھا۔
آڈیٹر جنرل کا کہنا ہے کہ این ڈی ایم اے کے آڈٹ کے دوران بار بار تحریری اور زبانی درخواستوں کے باوجود کافی تعداد میں ریکارڈ اور متعلقہ دستاویزات آڈٹ کی جانچ پڑتال کے لیے پیش نہیں کیے گئے۔
آڈیٹر حکام کا کہنا ہے کہ نو اشیا کی خریداری زیادہ نرخوں پر کی گئی جس سے 70 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔
یونیسیف کی جانب سے 1.3 بلین روپے مالیت کے ذاتی حفاظتی سامان (پی پی ای) کی عدم فراہمی کے کیسز بھی سامنے آئے۔ بیرون ملک سے واپس آنے والے مسافروں کی نقل و حمل اور کھانے پینے کی اشیا کے معاملات میں 10 ملین روپے کا فرق پایا گیا ۔
ایک دستخط کنندہ کے ذریعہ بینک اکاؤنٹ کا بے قاعدہ آپریشن بھی تھا۔ بینک اکاؤنٹس اور فرموں کو کراس چیک کے بجائے نقد رقم کی بے قاعدگی سے ادائیگی کا معاملہ بھی سامنے آیا ہے۔
دفاعی اخراجات میں آڈیٹرز نے دو مختلف کیسز میں کوویڈ 19 سے متعلق مختص اور اخراجات میں 1.9 بلین روپے کی بدانتظامی کی نشان دہی کی ہے۔
دو سو ملین روپے کے کوویڈ 19 کے فنڈز کو واجبات کی منظوری اور دل کی عام ادویات کی خریداری کی طرف موڑ دیا گیا۔
کمبائنڈ ملٹری اسپتال راولپنڈی کے ایک آڈٹ کے دوران ریکارڈ سے یہ بات سامنے آئی کہ ٹینڈرز کے تقابلی اسٹیٹمنٹ میں دستیاب کم ترین نرخوں کو نظر انداز کر کے ایک ہی طرح کی پی پی ای اشیا زیادہ نرخوں پر خریدی گئیں۔
پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کو 235 ملین روپے کی بے ضابطگی ادائیگی ضروری رسمی کارروائیوں کو پورا کیے بغیر کی گئی۔ جو مسلح افواج کے سروس ایئر کرافٹ کے ذریعے منتقل کی جانی تھی۔
بے نظیر انکم اسپورٹ پروگرام
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے دی گئی 133 ارب روپے کی رقم میں سے آڈٹ نے 484,402 فائدہ اٹھانے والوں کو 6.6 بلین کی ادائیگیوں کا جائزہ لیا ہے۔
آڈیٹر کا کہنا ہے کہ کسی بھی واضح پالیسی کی عدم موجودگی کی وجہ سے مستقبل میں کسی بھی متعلقہ ادائیگی سے پہلے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان ادائیگیوں کے دوران سرکاری ملازمین بشمول پنشنرز اور ان کی بیویوں کو 1.84 ارب روپے کی کیش ٹرانسفر کی غیر قانونی ادائیگیاں ہوئیں۔ فائدہ اٹھانے والوں کی غلط پروفائلنگ کے نتیجے میں شوہروں اور بیویوں کو 1.6 ارب روپے کی نقد رقم ٹرانسفر کردی گئی۔ کرونا کیش ٹرانسفرز کی 16 ملین روپے سے زیادہ کی ادائیگیاں ان افراد کو کی گئیں جن کی فائلرز کی حیثیت تھی اور وہ خوشحال تھے۔
بی آئی ایس پی اور زکوٰۃ دونوں کی جانب سے 318.7 ملین روپے ایک ہی خاندان کو فراہم کیے گئے ہیں۔
پاکستان میں کرونا کے آڈٹ کے حوالے سے شدید اعتراضات پائے جاتے ہیں اور کئی سیاسی جماعتوں نے بھی اس حوالے سے آڈٹ کروانے کی بات کی تھی اور اب آئی ایم ایف کے دباؤ پر یہ آڈٹ رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں آڈیٹر جنرل نے بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا ہے۔
کرونا فنڈز میں 40 ارب کی مبینہ بے ضابطگیوں پر اپوزیشن اور مختلف حلقے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ البتہ حکام کا کہنا ہے کہ کرونا وبا کے باعث ہنگامی طور پر بعض اقدامات کرنا پڑے جس میں بدانتظامی ہو سکتی ہے، لہذٰا اسے کرپشن سے نہیں جوڑا جا سکتا۔
حکومت کا ردِعمل
وزارتِ خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ آڈٹ رپورٹ پر آئی ایم ایف نے کسی قسم کا اعتراض نہیں اُٹھایا کیوں اس آڈٹ میں کسی فراڈ یا بدعنوانی کا شائبہ نہیں ملا۔
اُن کا کہنا تھا کہ کچھ معاملات پر بدانتظامی ہوئی ہے جس کی وجہ کرونا کی وجہ سے ہنگامی صورتِ حال اور مستحقین تک جلد رقم پہنچانا ہے۔