سویڈن کی پولیس نے کہا ہے کہ اسے دو مہینے پہلے لاپتا ہونے والے ایک پاکستانی صحافی کی نعش مل گئی ہے۔
لاپتا ہونے والے پاکستانی صحافی کا نام ساجد حسین تھا۔ وہ بلوچی زبان میں خبروں کی ایک ویب سائٹ کے ایڈیٹر تھے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ قتل کی دھمکیاں ملنے کے بعد وہ اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ کر سویڈن آگئے تھے اور وہاں حکومت نے ان کی پناہ کی درخواست منظور کر لی تھی۔
ان کے لاپتا ہونے کے بعد پریس کی آزادی کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ساجد حسین کی گمشدگی میں پاکستان کی فوجی خٖفیہ ایجنسی، آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے۔
لیکن، بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ سویڈن کی پولیس کے ترجمان نے کہا ہے کہ ابتدائی تحقیقات سے ایسے شواہد نہیں ملے کہ پاکستانی صحافی کی ہلاکت کے پیچھے کوئی ایسی چیز تھی۔
ساجد حسین کی عمر 39 تھی۔ پریس کی آزادی کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق، انہیں آخری بار 2 مارچ کو سٹاک ہوم کے ایک ریلوے اسٹیشن پر دیکھا گیا تھا جب وہ اپسالا جانے کے لیے ٹرین میں سوار ہو رہے تھے۔
وہ اپسالا ایک نئے فلیٹ کی چابیاں لینے کے لیے جا رہے تھے۔ لیکن، جب ٹرین اپسالا پہنچی تو وہ اس سے نہیں اترے۔ وہ راستے میں کہاں غائب ہوئے، کوئی نہیں جانتا۔ تاہم، آزادی صحافت کے ایک گروپ نے شبہے کا اظہار کیا ہے کہ انہیں زبردستی اٹھا لیا گیا تھا، جس میں پاکستانی خفیہ ایجنسی کا ہاتھ تھا۔
ساجد جب تک پاکستان میں تھے، وہ صوبہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے بارے میں لکھتے رہتے تھے۔
ساجد کی اہلیہ شہناز نے میڈیا کو بتایا کہ 2012 میں جب وہ گھر پر نہیں تھے، کچھ لوگوں نے گھر پر چھاپہ مارا اور ان کا لیپ ٹاپ اور دوسرے کاغذات اٹھا کر لے گئے۔ جس کے بعد انہوں نے پاکستان چھوڑ دیا اور پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئے۔
پاکستان کا شمار صحافیوں کے لیے خطرناک ملکوں میں کیا جاتا ہے۔ سن 2019 کے پریس فریڈم انڈکس کے مطابق، 180 ملکوں کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 142 واں تھا۔