رسائی کے لنکس

مذہب کی جبری تبدیلی روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات پر زور


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان میں جبری تبدیلی مذہب کے معاملے کو اجاگر کرنے کے لیے اسلام آباد میں ایک کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میں شرکا نے اس ضمن میں موثر قانون سازی کے ساتھ ساتھ سماجی رویوں میں تبدیلی لانے پر بھی زور دیا۔

ایک غیر سرکاری تنظیم 'ساؤتھ ایشیئن کیپیسٹی ڈیولپمنٹ فاؤنڈیشن' نے اس قومی کانفرنس کا انعقاد کیا تھا۔ شرکا میں قانون سازوں کی ایک قابل ذکر تعداد بھی شریک تھی۔

سینیٹر محمد سیف کا اس موقع پر کہنا تھا کہ گو کہ ملک کا آئین مذہبی آزادی کو یقینی بناتا ہے لیکن غیر مسلموں کو درپیش مسائل مذہبی سے زیادہ سماجی اور سیاسی نوعیت کے ہیں۔

ان کے بقول کئی پرانے قوانین اب بھی رائج ہیں جن میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے۔

انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن اور سابق قانون ساز افراسیاب خٹک کا کہنا تھا کہ معاشرے میں انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے کام کرنا ہو گا جو ان کے بقول مذہب کی جبری تبدیلی اور ہجوم کے ہاتھوں ماورائے قانون سزائیں دینے جیسے واقعات کا سبب بھی بن رہی ہے۔

حزب مخالف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے اقلیتی رکن قومی اسمبلی لال چند ملہی بھی کانفرنس میں شریک تھے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حالیہ برسوں میں خاص طور پر سندھ میں تبدیلی مذہب کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور یہ صورت حال بہت تشویشناک ہے۔

"لوگوں میں خوف پایا جاتا ہے اسی لیے جو غریب ہندو ہیں وہ اپنی بچیوں کی کم عمری میں ہی شادی کر دیتے ہیں کہ بڑی ہونے پر اگر ان کی لڑکی پر کسی کی نظر پڑ گئی اور وہ اسے اغوا کر کے زبردستی مذہب تبدیل نہ کروا دے اور ایسے ہی تعلیم دلواتے ہوئے بھی وہ سوچتے ہیں کہ لڑکی کو کالج بھیجیں یا نہیں۔"

کانفرنس میں شریک پاکستان ہندو کونسل کے سرپرست اعلیٰ اور حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی رمیش کمار ونکوانی نے کہا کہ جبری تبدیلی مذہب کے معاملے پر تمام شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کو تعاون کرنا ہو گا۔

حکومت یہ کہتی آئی ہے کہ وہ ملک میں آباد غیر مسلموں کے حقوق کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے اور اس ضمن میں قانون سازی کے ساتھ ساتھ بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے بھی اقدام کر رہی ہے۔

XS
SM
MD
LG