اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ 25 اگست کے بعد سے میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش پناہ لینے والے روہنگیا مہاجرین کی تعداد پانچ لاکھ 89 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان فرحان حق نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ان میں سے نصف تارکین وطن کٹوپلانگ میں قائم ایک بڑے کیمپ میں رہائش پذیر ہیں جہاں امدادی اداورں کے کارکن بنیادی سہولتوں، بنیادی ڈھانچے اور سڑک کی حالت کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
فلاحی ادارے ریفیوجیز انٹرنینشل کے صدر ایرک پال شوارٹز نے گزشتہ ماہ بنگلہ دیش کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ستمبر کے اوائل میں مہاجرین کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ یہ صورت حال 'ںسلی صفائی' کے مترداف ہے اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا جارہا ہے۔
شوارٹز نے نیویارک میں کونسل آن فارن ریلیشنز میں ایک تقریب کے دوران کہا کہ "یہ صورت حال اس لیے بھی پریشان کن ہے کہ جن لوگوں سے ہماری بات ہوئی وہ (ان کے ساتھ رونما ہونے والے) واقعات کے بارے میں ایک جیسی تفصیل بیان کر رہے تھے۔ "
انہوں ںے کہا کہ میانمار کی فوج نے ان کے دیہات کو آتشیں گولوں سے نشانہ بنایا اور انہوں نے ایسا اکثر بغیر کسی پیشگی اطلاع یا انتباہ کے کیا اور اس دوران جب عام لوگوں نے فرار ہونے کی کوشش کی تو انہیں منظم انداز میں فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔
"ہر شخص نے ہمیں یہی کہانی سنائی ہے۔ اگر آ پ چھ ہفتوں کے دوران پانچ لاکھ 80 ہزار افراد کو ایک ملک سے نکال باہر کرتے ہیں، تو پھر یہی کچھ کیا جاتا ہے۔ آپ لوگوں کو ایسے طریقوں سے دہشت زدہ کرتے ہیں جوخوفناک ہوں۔"
اقوام متحدہ اور بین الاقوامی امدادی ادارے مہاجرین کی مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس حوالے سے ایک کانفرنس پیر کو جینیوا میں ہونے جارہی ہے جس کا مقصد فروری 2018ء تک بارہ لاکھ مہاجرین کے لیے 43 کروڑ 34 لاکھ ڈالر جمع کرنا ہے ۔
بنگلہ دیش کی حکومت بھی مہاجرین کو مدد فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے جن کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت نے عارضی رہائش گاہوں کی تعمیر کے لیے تین ہزار ایکڑ رقبے کو مخصوص کیا ہے۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کو آباد کرنے میں کچھ وقت درکار ہو گا کیونکہ یہاں رابطہ سڑکوں، صاف پانی اور دیگر بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔