سرکاری راز افشاع کرنے کے مقدمے میں مصر کی ایک عدالت نے سابق صدر محمد مرسی کو عمر قید کی ایک اور سزا سنائی ہے۔
عدالت نے ہفتے کے روز مرسی کے چھ ساتھیوں کو موت کی سزا سنائی، جن میں ’الجزیرہ‘ کے دو ملازمین اور ایک اخباری نمائندہ شامل ہے۔ دو دیگر ملزمان کو، جو مرسی کے دفتر میں کام کیا کرتے تھے، عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
ہفتے کو سنائی گئی سزاؤں پر اپیل ہو سکتی ہے۔ 11 میں سے سات مجرم، جن میں مرسی بھی شامل ہیں، حراست میں ہیں۔
’الجزیرہ‘ کے دو ملازمین جن کی جج نے شناخت ظاہر کی ہے، وہ نیوز پروڈیوسر اعلیٰ عمر محمد اور نیوز ایڈیٹر ابراہیم محمد ہلال؛ اور تیسرا اخباری نمائندہ ہے، جِن کی شناخت اسامہ الخطیب ظاہر کی گئی ہے، جو ’رسد‘ نامی میڈیا ورک میں کام کیا کرتے تھے، اُنھیں موت کی سزا سنائی گئی ہے۔ میڈیا نیٹ ورک پر مرسی کے اخوان المسلین کے ساتھ روابط کا شبہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔
مروجہ ضابطوں کے مطابق، توثیق کے لیے جج کی جانب سے سنائی گئی موت کی سزا کی سفارش مصر کے مفتیٴ اعظم کو پیش کی جاتی ہے، جو ملک کا اعلیٰ ترین دینی ادارہ ہے۔
ہفتے کے روز سنائے گئے فیصلوں کے بارے میں فوری طور پر ’الجزیرہ‘ نے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
تاہم، حقوقِ انسانی کے گروپ، ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے مطالبہ کیا ہے کہ موت کی سزا کو فوری طور پر واپس لیا جائے، اور بقول اُس کے، ’’صحافیوں کے خلاف مضحکہ خیز الزامات خارج کیے جائیں‘‘۔
آزادانہ انتخابات میں، مرسی مصر کے صدر اور اخوان المسلمین تنظیم کے صدر منتخب ہوئے تھے، جنھیں جولائی 2013ء میں فوج نے اقتدار سے علیحدہ کیا تھا۔ اُنھیں پہلے ہی دیگر الزامات پر سزائے موت، عمر قید اور 20 برس کی جیل کی سزا ہو چکی ہے۔
موت کی پہلی سزا اور دیگر دو سزاؤں کے خلاف اُن کی اپیل زیرِ سماعت ہے۔
اُنھیں اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد، اُن کی اخوان المسلمین پر بندش عائد کی گئی تھی، اور تنظیم کو دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔
تیس جون، 2012ء سے تین جولائی 2013ء تک مرسی نے مصر کے پانچویں صدر کے طور پر خدمات انجام دیں۔