امریکہ کے یورپی یونین کے لیے سفیر گورڈن سونڈلینڈ کا کہنا ہے کہ انہوں نے امریکی صدر ٹرمپ کا حکم مانتے ہوئے سابق امریکی نائب صدر جو بائیڈن کے خلاف تحقیقات کیلئے یوکرین کی حکومت پر دباؤ ڈالنے کی خاطر صدر ٹرمپ کے ذاتی وکیل روڈی جولیانی کے ساتھ مل کر کام کیا تھا۔
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی سماعت کے دوران بدھ کے روز دی گئی امریکی سفیر سونڈلینڈ کی گواہی اب تک دی گئی شہادتوں میں سب سے اہم سمجھی جاتی ہے۔
امریکی ایوانِ نمائندگان میں ڈیموکریٹ ارکان کی طرف سے صدر ٹرمپ کے خلاف شروع کی گئی مواخذے کی سماعت دوسرے ہفتے میں داخل ہو گئی ہے۔
سماعت کے طویل مراحل میں گواہی دینے والوں نے صدر ٹرمپ کی 25 جولائی کو یوکرین کے صدر ولادی میر زیلینسکی کے ساتھ فون پر بات چیت کے حوالے سے تفصیلات بتائیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مزید اہم شہادتیں ابھی باقی ہیں۔
مواخذے کی سماعت کے دوران سفیر گورڈن سونڈلینڈ نے گواہی دی۔ وہ صدر ٹرمپ کے مبینہ طور پر غیر معمولی سفارتی چینل کے ایک کلیدی کردار ہیں۔
منگل کے روز امریکہ کی 'قومی سکیورٹی کونسل' میں یورپین معاملات کے ڈائریکٹر لیفٹننٹ کرنل ایلگزینڈر ونڈمین نے کہا تھا کہ سفیر سونڈلینڈ کا کہنا تھا کہ صدر زیلینسکی کو وائٹ ہاؤس میں ملاقات کا موقع حاصل کرنے کی خاطر ایک کام کرنا ہوگا اور وہ ہے ایک خاص نوعیت کی تحقیقات۔
لیفٹننٹ کرنل ونڈمین ان چار افراد میں شامل تھے جنہوں نے گذشتہ روز ہاؤس انٹیلی جنس کمیٹی کے سامنے گواہی دی تھی۔
ونڈمین نے گواہی کے دوران غیر معمولی سفارتی چینل کے بارے میں براہ راست بات کی تھی۔ جس میں صدر ٹرمپ اور یوکرین کے صدر زیلینسکی کے درمیان 25 جولائی کو فون پر ہونے والی بات چیت کی تفصیلات بھی شامل تھیں۔ جو اس مواخذے کی سماعت کا مرکزی حصہ ہے۔
ہاؤس انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین ایڈم شیف کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ نے ایک غیر ملکی رہنما پر دباؤ ڈالتے ہوئے انہیں اپنے سیاسی حریف کے بارے میں تحقیقات کرنے پر مجبور کر کے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کو قومی مفادات پر فوقیت دی۔
کرنل ونڈمین اور نائب صدر مائیک پینس کی معاون جنیفر ولیمز نے کمیٹی کو بتایا کہ انہیں صدر ٹرمپ کے اقدامات پر شدید پریشانی ہوئی۔
جنیفر ولیمز کا کہنا تھا کہ انہیں 25 جولائی کی فون پر بات چیت بہت عجیب لگی کیونکہ انہوں نے دوسرے صدور کی جو فون کالز سنی ہیں۔ ان کے مقابلے میں اس فون کال میں ایک ایسے معاملے پر گفتگو ہوئی جو خالصتاً امریکہ کا داخلی و سیاسی معاملہ تھا۔
کرنل ونڈمین کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس بارے میں اپنے اعلیٰ افسران کو مطلع کرتے ہوئے بتایا تھا کہ امریکہ کے صدر کا ایک غیر ملکی حکومت کو اپنے ایک شہری اور سیاسی حریف کے بارے میں تحقیقات کا مطالبہ کرنا، غیر مناسب بات ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہیں یہ بھی اچھی طرح معلوم تھا کہ اگر یوکرین اس تحقیقات کیلئے آمادہ ہوتا تو اس سے یہ تاثر ملتا کہ یوکرین، امریکہ میں صرف ایک فریق کی حمایت میں ایسا کر رہا ہے۔ اس سے یوکرین دونوں پارٹیوں کی مشترکہ حمایت سے محروم ہو جاتا۔ جس سے امریکہ کی سکیورٹی متاثر ہوتی اور علاقے میں روس کے اسٹریٹجک مفادات کو فائدہ پہنچتا۔
تاہم، رپبلکن پارٹی کے ارکان دلیل دیتے ہیں کہ وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کی جانے والی فون کال کی سمری میں صدر کو بری الذمہ قرار دے دیا گیا ہے۔
ایوان نمائندگان میں رپبلکن پارٹی کے رکن جم جورڈن کہتے ہیں کہ ٹرانسکرپٹ میں کوئی تعلق واضح نہیں ہوتا اور فون کال میں شامل دونوں شخصیات کا کہنا تھا کہ کوئی دباؤ موجود نہیں ہے اور سکیورٹی کے حوالے سے مالی امداد کا تحقیقات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
تاہم صدر ٹرمپ نے شروع میں گواہی دینے والوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے ایک اور گفتگو کے بارے گفتگو سنی۔ جو صدر نے کی تھی۔ امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ تضحیک آمیز ہے اور یہ ہماری قوم کے لئے شرمندگی کا باعث ہے۔
ایوانِ نمایندگان میں رپبلکن ارکان کی طرف سے شہادت دینے کیلئے جن لوگوں کو بلایا گیا انہوں نے صدر ٹرمپ کے کیس میں مدد دی۔
یوکرین میں امریکہ کے سابق سفیر کرٹ وولکر کا دوران سماعت کہنا تھا کہ وہ یوکرین میں روسی جنگ کے حوالے سے امریکہ کے اعلیٰ ترین سفارتی نمائندہ تھے اور ان کا کردار کسی غیر معمولی چینل کیلئے نہیں تھا۔ بلکہ سرکاری چینل کے حوالے سے ہی تھا۔
کرٹ وولکر کا مزید کہنا تھا کہ ان کے خیال میں سابق نائب صدر جو بائیڈن کے خلاف الزامات خود صدر ٹرمپ کے مفاد میں تھے اور وہ قابل اعتبار نہیں تھے۔