واشنگٹن —
عراق میں شدت پسند جنگجووں نے ملک کے دوسرے بڑے شہر موصل پر قبضہ کرلیا ہے اور پولیس اور فوجی دستے بغیر مزاحمت کے شہر سے پسپا ہوگئے ہیں۔
عراقی حکام کے مطابق سیکڑوں مسلح باغی دارالحکومت بغداد سے 350 کلو میڑ شمال میں واقع موصل شہر میں پیر کی شب داخل ہوئے تھے اور منگل کی دوپہر تک پورے شہر پر ان کا قبضہ ہوگیا ہے۔
عراق کے صوبے نینوا میں واقع 20 لاکھ سے زائد آبادی کے اس شہر کے گرد و نواح میں گزشتہ چار روز سے باغیوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان لڑائی جاری تھی۔
لڑائی کے بعد پیر کو رات گئے جنگجووں نے شہر کے مغربی علاقے میں قائم صوبائی حکومت کے صدر دفتر پر قبضہ کرکے اپنا پرچم لہرا دیا تھا۔
اطلاعات تھیں کہ جنگجووں کے قبضے کے دوران شمالی صوبے نینوا کے گورنر عثیل نجفی بھی عمارت کے اندر محصور ہو گئے تھے لیکن بعد میں وہ وہاں سے نکلنے میں کامیاب رہے۔
بعد ازاں باغیوں نے شہر کے جنوب کی طرف پیش قدمی کی تھی جہاں بیشتر فوجی تنصیبات واقع ہیں۔ شہریوں اور حکام کو امید تھی کہ باغیوں کو علاقے میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن انہیں اس وقت حیرت ہوئی جب پولیس کے بعد فوج بھی بغیر مزاحمت کے پسپا ہوگئی۔
حکام کا کہنا ہے کہ باغیوں کا تعلق شدت پسند تنظیم 'الدولة الاسلامية في العراق والشام (آئی ایس آئی ایل)' سے ہے جس کے پرچم شہر کی تمام سرکاری اور فوجی تنصیبات پر لہرا رہے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو ایک فوجی کرنل نے بتایا ہے کہ موصل منگل کی صبح فوج کے ہاتھ سے نکل گیا تھا اور شہر اب باغیوں کے مکمل قبضے میں ہے۔
ایک اور فوجی افسر نے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ عراقی پولیس اور فوج کے لیے جنگجووں کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں تھا کیوں کہ انہیں باغیوں کی طرح گلی کوچوں میں لڑائی کا تجربہ نہیں ہے۔
فوجی افسر کا کہنا تھا کہ موصل سے جنگجووں کا قبضہ چھڑانے کے لیے ایک پوری فوج درکار ہوگی۔ فوجی حکام کے مطابق انہوں نے شہر سے انخلا کے وقت ایندھن اور اسلحے کے تمام ذخائر کو آگ لگادی تھی تاکہ جنگجو انہیں استعمال نہ کرسکیں۔
حکام نے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ ٹینک اور طیارہ شکن میزائلوں اور راکٹوں جیسے بھاری ہتھیاروں سے لیس جنگجو منگل کی صبح تک شہر اور اس کے گرد و نواح میں قائم پولیس اور فوج کی تمام چوکیوں پر قبضہ کرچکے تھے۔
دو فوجی افسران کے مطابق جنگجووں کی جانب سے 'غزلانی' کی فوجی چھاؤنی پر قبضے اور وہاں قید 200 انتہائی مطلوب قیدی رہا کرنے کے بعد سکیورٹی فورسز کو شہر سے انخلا کا حکم ملا تھا جس پر عمل کیا گیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ باغیوں نے شہر کی ایک اور جیل میں موجود ایک ہزار قیدیوں کو بھی رہا کردیا ہے جن میں اکثریت کا تعلق 'آئی ایس آئی ایل' اور 'القاعدہ' سے ہے۔
موصل پر جنگجووں کے قبضے اور فوج کے پسپا ہونے کے بعد شہر سے ہزاروں عام شہریوں کا انخلا جاری ہے جو عراق کے اس تاریخی شہر سے نکل کر شمال میں واقع نیم خود مختار علاقے عراقی کردستان کا رخ کر رہے ہیں۔
موصل پر جنگجووں کے قبضے کے بعد عراق کے وزیرِاعظم نوری المالکی کی حکومت نے پارلیمان سے ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ کی استدعا کی ہے۔
'آئی ایس آئی ایل' کے جنگجو عراق کے ساتھ ساتھ شام میں بھی سرگرم ہیں جہاں وہ صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف لڑنے والی ایک اہم طاقت سمجھے جاتے ہیں۔
سخت گیر سنی نظریات کی حامل یہ تنظیم عراق کی شیعہ حکومت کے خلاف بھی طویل عرصے سے سرگرمِ عمل ہے اور اس سے قبل رواں سال تنظیم کے جنگجووں نے عراق کے شہر فلوجہ اور رمادی کے بعض علاقوں پر بھی قبضہ کرلیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جنگجو عراق کے شمالی سرحدی صوبوں نینوا اور الانبار پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں تاکہ وہاں سے شام میں جاری اپنی کارروائیوں میں تیزی لاسکیں۔ خیال رہے کہ عراق کے ان دونوں صوبوں کی اکثریتی آبادی سنی العقیدہ ہے۔
'الدولۃ الاسلامیۃ' شام اور عراق کے سنی اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک علیحدہ مسلمان ریاست کے قیام کی داعی ہے جہاں، اس کے رہنماؤں کے بقول، شریعت کا نفاذ کیا جائے گا۔
جنگجو تنظیم ابو بکر البغدادی نامی شدت پسند رہنما کی قیادت میں کام کر رہی ہے جس نے ایمن الظواہری سے اختلافات کے بعد اپنی تنظیم کی 'القاعدہ' سے وابستگی ختم کردی تھی۔
شام میں 'الدولۃ الاسلامیۃ'اور 'القاعدہ' کے جنگجووں کے درمیان گزشتہ کئی ماہ سے جھڑپیں بھی ہورہی ہیں جن میں پانچ سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
عراقی حکام کے مطابق سیکڑوں مسلح باغی دارالحکومت بغداد سے 350 کلو میڑ شمال میں واقع موصل شہر میں پیر کی شب داخل ہوئے تھے اور منگل کی دوپہر تک پورے شہر پر ان کا قبضہ ہوگیا ہے۔
عراق کے صوبے نینوا میں واقع 20 لاکھ سے زائد آبادی کے اس شہر کے گرد و نواح میں گزشتہ چار روز سے باغیوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان لڑائی جاری تھی۔
لڑائی کے بعد پیر کو رات گئے جنگجووں نے شہر کے مغربی علاقے میں قائم صوبائی حکومت کے صدر دفتر پر قبضہ کرکے اپنا پرچم لہرا دیا تھا۔
اطلاعات تھیں کہ جنگجووں کے قبضے کے دوران شمالی صوبے نینوا کے گورنر عثیل نجفی بھی عمارت کے اندر محصور ہو گئے تھے لیکن بعد میں وہ وہاں سے نکلنے میں کامیاب رہے۔
بعد ازاں باغیوں نے شہر کے جنوب کی طرف پیش قدمی کی تھی جہاں بیشتر فوجی تنصیبات واقع ہیں۔ شہریوں اور حکام کو امید تھی کہ باغیوں کو علاقے میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن انہیں اس وقت حیرت ہوئی جب پولیس کے بعد فوج بھی بغیر مزاحمت کے پسپا ہوگئی۔
حکام کا کہنا ہے کہ باغیوں کا تعلق شدت پسند تنظیم 'الدولة الاسلامية في العراق والشام (آئی ایس آئی ایل)' سے ہے جس کے پرچم شہر کی تمام سرکاری اور فوجی تنصیبات پر لہرا رہے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو ایک فوجی کرنل نے بتایا ہے کہ موصل منگل کی صبح فوج کے ہاتھ سے نکل گیا تھا اور شہر اب باغیوں کے مکمل قبضے میں ہے۔
ایک اور فوجی افسر نے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ عراقی پولیس اور فوج کے لیے جنگجووں کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں تھا کیوں کہ انہیں باغیوں کی طرح گلی کوچوں میں لڑائی کا تجربہ نہیں ہے۔
فوجی افسر کا کہنا تھا کہ موصل سے جنگجووں کا قبضہ چھڑانے کے لیے ایک پوری فوج درکار ہوگی۔ فوجی حکام کے مطابق انہوں نے شہر سے انخلا کے وقت ایندھن اور اسلحے کے تمام ذخائر کو آگ لگادی تھی تاکہ جنگجو انہیں استعمال نہ کرسکیں۔
حکام نے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ ٹینک اور طیارہ شکن میزائلوں اور راکٹوں جیسے بھاری ہتھیاروں سے لیس جنگجو منگل کی صبح تک شہر اور اس کے گرد و نواح میں قائم پولیس اور فوج کی تمام چوکیوں پر قبضہ کرچکے تھے۔
دو فوجی افسران کے مطابق جنگجووں کی جانب سے 'غزلانی' کی فوجی چھاؤنی پر قبضے اور وہاں قید 200 انتہائی مطلوب قیدی رہا کرنے کے بعد سکیورٹی فورسز کو شہر سے انخلا کا حکم ملا تھا جس پر عمل کیا گیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ باغیوں نے شہر کی ایک اور جیل میں موجود ایک ہزار قیدیوں کو بھی رہا کردیا ہے جن میں اکثریت کا تعلق 'آئی ایس آئی ایل' اور 'القاعدہ' سے ہے۔
موصل پر جنگجووں کے قبضے اور فوج کے پسپا ہونے کے بعد شہر سے ہزاروں عام شہریوں کا انخلا جاری ہے جو عراق کے اس تاریخی شہر سے نکل کر شمال میں واقع نیم خود مختار علاقے عراقی کردستان کا رخ کر رہے ہیں۔
موصل پر جنگجووں کے قبضے کے بعد عراق کے وزیرِاعظم نوری المالکی کی حکومت نے پارلیمان سے ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ کی استدعا کی ہے۔
'آئی ایس آئی ایل' کے جنگجو عراق کے ساتھ ساتھ شام میں بھی سرگرم ہیں جہاں وہ صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف لڑنے والی ایک اہم طاقت سمجھے جاتے ہیں۔
سخت گیر سنی نظریات کی حامل یہ تنظیم عراق کی شیعہ حکومت کے خلاف بھی طویل عرصے سے سرگرمِ عمل ہے اور اس سے قبل رواں سال تنظیم کے جنگجووں نے عراق کے شہر فلوجہ اور رمادی کے بعض علاقوں پر بھی قبضہ کرلیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جنگجو عراق کے شمالی سرحدی صوبوں نینوا اور الانبار پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں تاکہ وہاں سے شام میں جاری اپنی کارروائیوں میں تیزی لاسکیں۔ خیال رہے کہ عراق کے ان دونوں صوبوں کی اکثریتی آبادی سنی العقیدہ ہے۔
'الدولۃ الاسلامیۃ' شام اور عراق کے سنی اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک علیحدہ مسلمان ریاست کے قیام کی داعی ہے جہاں، اس کے رہنماؤں کے بقول، شریعت کا نفاذ کیا جائے گا۔
جنگجو تنظیم ابو بکر البغدادی نامی شدت پسند رہنما کی قیادت میں کام کر رہی ہے جس نے ایمن الظواہری سے اختلافات کے بعد اپنی تنظیم کی 'القاعدہ' سے وابستگی ختم کردی تھی۔
شام میں 'الدولۃ الاسلامیۃ'اور 'القاعدہ' کے جنگجووں کے درمیان گزشتہ کئی ماہ سے جھڑپیں بھی ہورہی ہیں جن میں پانچ سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔