ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی کے رکن، گلفراز خٹک ایڈووکیٹ کو جمعہ کی دوپہر عدالت کے باہر سے گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے کارکنوں کو اشتعال دلایا اور اشتعال انگیز تقریروں میں سہولت کار کے طور پر کام کیا۔
ایس ایس پی ساؤتھ عدیل چانڈیو کے مطابق کراچی کے آرٹلری تھانے میں ان کے خلاف دو مقدمات درج ہیں۔ ان مقدمات میں نجی ٹی وی چینل اے آر وائی نیوز پر حملہ اور املاک کو نقصان پہنچانے کا بھی الزام عائد کیا گیا ہے۔
ان کے حوالے سے کچھ مقامی میڈیا اطلاعات میں یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ متعدد عدالتوں سے ان کے نام وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہوچکے ہیں۔
گلفراز خٹک کو رینجرز نے کلفٹن میں واقع انسداد دہشت گردی کی عدالت کے باہر سے جمعہ کی دوپہر گرفتار کیا۔
فاروق ستار کی مذمت
گلفراز کی گرفتار کے خلاف ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار نے جمعہ کی رات پریس کانفرنس بھی کی جس میں ان کا کہنا تھا کہ گلفراز کسی مقدمے میں مطلوب نہیں ہیں۔ انہیں راتوں رات مطلوب ظاہر کرکے ان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ ہم اس اقدام کی مذمت کرتے ہیں۔ حکام کو بتانا ہوگا کہ جن لوگوں نے 22 اگست کے واقعے کی شدید مذمت کی ہے انہیں بھلا کیوں کر پکڑا جارہا ہے۔
فاروق ستار کا کہنا تھا کہ اگر گرفتاریوں کا سلسلہ نہ روکا گیا تو ان کے پاس استعفے دینے کا آپشن موجود ہے۔ تاہم، یہ ضرورتاً کبھی بھی استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔
متحدہ ۔۔ سیاسی اسیروں کی پارٹی؟
رینجرز کی جانب سے حراست میں لئے جانے والے گلفراز خٹک پہلے رہنما نہیں ہیں، بلکہ ایم کیو ایم کے اسیر کارکنوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ گلفراز کے علاوہ متعدد رہنما پچھلے کئی ماہ سے زیر حراست ہیں جن میں موجودہ مئیر وسیم اختر، سابق وزیر داخلہ رؤف صدیقی، رکن قومی اسمبلی کنور نوید جمیل، سابق رکن رابطہ کمیٹی قمر منصور سمیت درجنوں کارکن اور رہنما زیر حراست ہیں۔ زیادہ تر رہنماؤں پر مبینہ دہشت گردوں کےعلاج اور اشتعال انگیز تقریر میں مبینہ سہولت کاری پر درجنوں مقدمات درج ہیں۔
پی ایس پی میں شامل ہونے والے متحدہ رہنما
کارکن گرفتاریوں سے بچنے کے لئے دوسری جماعتوں میں بھی شامل ہو رہے ہیں جیسے سابق ڈپٹی کنوینر رابطہ کمیٹی انیس قائم خانی، انیس احمد ایڈووکیٹ، رضا ہارون، وسیم آفتاب، رکن قومی اسمبلی آصف حسنین، رکن سندھ اسمبلی ڈاکٹر صغیر احمد، افتخار عالم، اشفاق منگی، بلقیس مختار، دلاور خان اور سابق سینیٹر محمد علی بروہی، سابق رکن رابطہ کمیٹی افتخار رندھاوا۔ نائب صدر ایم کیو ایم پنجاب عبدالکریم۔
متحدہ قومی موومنٹ کے اسیر رہنماؤں علاوہ اس کے بانی رہنما ایم کیو ایم الطاف حسین پر بھی غداری اور سیکورٹی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر سمیت درجنوں مقدمات درج ہیں جبکہ فاروق ستار، خواجہ اظہارالحسن، عامر خان اور خالد مقبول صدیقی کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ ان پر بھی متعدد الزمات ہیں۔
ادھر ایم کیو ایم یہ دعویٰ بھی کرتی رہی ہے کہ اب تک اس کے 62 سے زائد کارکنوں کو ماورائے عدالت قتل کیا جا چکا ہے، جبکہ درجنوں کارکن تاحال لاپتہ ہیں۔