پاکستانی سیاست میں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے حکومتی راہوں پر ہمسفر بننے کے امکانات روشن ہو گئے تاہم ایم کیو ایم کی حکومت میں واپسی کے لئے سر توڑ کاوشوں نے جہاں کئی سوالات کو جنم دیا وہیں بعض سیاسی پنڈت مسلم لیگ ق اور پیپلزپارٹی کے اتحاد کا مستقبل خطرے میں دیکھ رہے ہیں جو پیپلزپارٹی کے لئے ایک نیا بحران ثابت ہو سکتا ہے۔
بدھ کو وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کی ملاقات سے واضح ہو گیا کہ وزیر داخلہ سندھ منظور وسان کا ایم کیو ایم سے متعلق خواب پورا ہونے میں کچھ زیادہ وقت نہیں بچا، ملکی میڈیا کے مطابق اس ملاقات میں ایم کیو ایم کی حکومت میں شمولیت سے متعلق فارمولے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے، اگر چہ منگل کو گورنر سندھ صدر آصف علی زرداری سے بھی ملاقات کر چکے تھے تاہم بعض معاملات پر وزیراعظم سے مشاورت انتہائی ضروری تھی اور ایم کیو ایم کے بعض ایسے تحفظات اور مطالبات تھے جن پر وزیراعظم ہی انہیں یقین دہانی کروا سکتے تھے۔
مبصرین کے مطابق ایم کیو ایم کی علیحدگی کے بعد اسے حکومت میں دوبارہ شامل کرنے کے لئے پیپلزپارٹی کو بعض ایسے فیصلے کرنے پڑے جس سے اس کی ساکھ شدید متاثر ہوئی ، ایک جانب تو اسے اپنی سب سے پر اعتماد حلیف جماعت اے این پی اور قوم پرست جماعتوں کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا تو دوسری جانب ، بعض معاملات میں پارٹی کے اندر بھی شدید اختلافات سامنے آئے ، کارکنان کے دباؤ کے علاوہ یہ تاثر بھی ابھرا کہ پیپلزپارٹی کا سندھ کارڈ اب کمزور ہو چکا ہے۔
مبصرین کے مطابق اگر چہ پیپلزپارٹی کے لئے ایم کیو ایم کو منانا آسان نہ تھا تاہم حکومتی مدت پوری کرنے کے لئے یہ سب کرنا اس کی مجبوری تھی، اگر حقیقت پسندی سے موجودہ سیاسی تناظر کا جائزہ لیا جائے تو پیپلزپارٹی موجودہ حکومت کے مستقبل سے متعلق غیر یقینی صورتحال سے دو چار ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ مسلم لیگ ق کے ساتھ شراکت اقتدار کیلئے طے پانے والے فارمولے پر عملدرآمد میں مشکلات کا معاملہ ہے۔
مسلم لیگ ق کے مطالبے پر ملک میں سرائیکی صوبہ اور صوبہ ہزار ہ کے لئے اگر چہ پیپلزپارٹی کی سینئر قیادت کی جانب سے تندو تیز بیانات کا سلسلہ شروع ہوا مگر مسلم لیگ ن اور اے این پی کی جوابی کارروائی نے ماحول پر یکسر خاموشی طاری کر دی۔ سرائیکی صوبے کے مطالبے کے جواب میں مسلم لیگ ن کی قیادت نے جہاں صوبہ سندھ سمیت ملک بھر میں نئے صوبوں کے قیام کیلئے کمیشن کا مطالبہ کر دیا وہیں عوامی نیشنل پارٹی نے صوبہ ہزارہ کی حمایت کے بجائے فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں شامل کرنے اور بلوچستان میں پشتونخواہ صوبے کی بات کر کے اس بحث کو سمیٹ دیا۔
اسی طرح مسلم لیگ ق کی حکومت میں شمولیت کے وقت یہ تاثر پیدا ہو رہا تھا کہ اس عمل سے این آئی سی ایل اسکینڈل میں گرفتار مسلم لیگ ق کے رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے صاجزادے مونس الٰہی کیلئے کوئی آسانی پیدا ہو جائے گی، اگر چہ حکومت کی جانب سے اس کیس کے تفتیشی افسر ایڈیشنل ڈی جی ظفر قریشی کو میڈیا بیان پر ہٹانے سے اس بات کو تقویت ملی کہ اب شاید مسلم لیگ ق کا مطالبہ پورا ہو جائے مگر سپریم کورٹ کے حکم پر اس کی تفتیش دوبارہ ظفر قریشی کو سونپنا اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ اگر مسلم لیگ ق مونس الٰہی کو بچانے کیلئے حکومت میں شامل ہوئی تھی تو یہ اس کی غلطی تھی۔
ماہرین کے مطابق اس تمام تر صورتحال سے مختلف خدشات جنم لے رہے ہیں اور ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ شاید مسلم لیگ ق اس تمام تر صورتحال میں جلد ہی حکومت میں مزید رہنے پر نظر ثانی کر سکتی ہے، پیپلزپارٹی بھی اس تمام تر تناظر سے بخوبی آگاہ ہے اور ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل کرنا بھی اسی کی ایک کڑی ہے تاکہ اگر مسلم لیگ ق حکومت کو خیر باد کہتی بھی ہے تو ایم کیو ایم سے اس خلا ء کو آسانی سے پر کیا جا سکتا ہے۔
بدھ کو وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کی ملاقات سے واضح ہو گیا کہ وزیر داخلہ سندھ منظور وسان کا ایم کیو ایم سے متعلق خواب پورا ہونے میں کچھ زیادہ وقت نہیں بچا، ملکی میڈیا کے مطابق اس ملاقات میں ایم کیو ایم کی حکومت میں شمولیت سے متعلق فارمولے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے، اگر چہ منگل کو گورنر سندھ صدر آصف علی زرداری سے بھی ملاقات کر چکے تھے تاہم بعض معاملات پر وزیراعظم سے مشاورت انتہائی ضروری تھی اور ایم کیو ایم کے بعض ایسے تحفظات اور مطالبات تھے جن پر وزیراعظم ہی انہیں یقین دہانی کروا سکتے تھے۔
مبصرین کے مطابق ایم کیو ایم کی علیحدگی کے بعد اسے حکومت میں دوبارہ شامل کرنے کے لئے پیپلزپارٹی کو بعض ایسے فیصلے کرنے پڑے جس سے اس کی ساکھ شدید متاثر ہوئی ، ایک جانب تو اسے اپنی سب سے پر اعتماد حلیف جماعت اے این پی اور قوم پرست جماعتوں کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا تو دوسری جانب ، بعض معاملات میں پارٹی کے اندر بھی شدید اختلافات سامنے آئے ، کارکنان کے دباؤ کے علاوہ یہ تاثر بھی ابھرا کہ پیپلزپارٹی کا سندھ کارڈ اب کمزور ہو چکا ہے۔
مبصرین کے مطابق اگر چہ پیپلزپارٹی کے لئے ایم کیو ایم کو منانا آسان نہ تھا تاہم حکومتی مدت پوری کرنے کے لئے یہ سب کرنا اس کی مجبوری تھی، اگر حقیقت پسندی سے موجودہ سیاسی تناظر کا جائزہ لیا جائے تو پیپلزپارٹی موجودہ حکومت کے مستقبل سے متعلق غیر یقینی صورتحال سے دو چار ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ مسلم لیگ ق کے ساتھ شراکت اقتدار کیلئے طے پانے والے فارمولے پر عملدرآمد میں مشکلات کا معاملہ ہے۔
مسلم لیگ ق کے مطالبے پر ملک میں سرائیکی صوبہ اور صوبہ ہزار ہ کے لئے اگر چہ پیپلزپارٹی کی سینئر قیادت کی جانب سے تندو تیز بیانات کا سلسلہ شروع ہوا مگر مسلم لیگ ن اور اے این پی کی جوابی کارروائی نے ماحول پر یکسر خاموشی طاری کر دی۔ سرائیکی صوبے کے مطالبے کے جواب میں مسلم لیگ ن کی قیادت نے جہاں صوبہ سندھ سمیت ملک بھر میں نئے صوبوں کے قیام کیلئے کمیشن کا مطالبہ کر دیا وہیں عوامی نیشنل پارٹی نے صوبہ ہزارہ کی حمایت کے بجائے فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں شامل کرنے اور بلوچستان میں پشتونخواہ صوبے کی بات کر کے اس بحث کو سمیٹ دیا۔
اسی طرح مسلم لیگ ق کی حکومت میں شمولیت کے وقت یہ تاثر پیدا ہو رہا تھا کہ اس عمل سے این آئی سی ایل اسکینڈل میں گرفتار مسلم لیگ ق کے رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے صاجزادے مونس الٰہی کیلئے کوئی آسانی پیدا ہو جائے گی، اگر چہ حکومت کی جانب سے اس کیس کے تفتیشی افسر ایڈیشنل ڈی جی ظفر قریشی کو میڈیا بیان پر ہٹانے سے اس بات کو تقویت ملی کہ اب شاید مسلم لیگ ق کا مطالبہ پورا ہو جائے مگر سپریم کورٹ کے حکم پر اس کی تفتیش دوبارہ ظفر قریشی کو سونپنا اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ اگر مسلم لیگ ق مونس الٰہی کو بچانے کیلئے حکومت میں شامل ہوئی تھی تو یہ اس کی غلطی تھی۔
ماہرین کے مطابق اس تمام تر صورتحال سے مختلف خدشات جنم لے رہے ہیں اور ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ شاید مسلم لیگ ق اس تمام تر صورتحال میں جلد ہی حکومت میں مزید رہنے پر نظر ثانی کر سکتی ہے، پیپلزپارٹی بھی اس تمام تر تناظر سے بخوبی آگاہ ہے اور ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل کرنا بھی اسی کی ایک کڑی ہے تاکہ اگر مسلم لیگ ق حکومت کو خیر باد کہتی بھی ہے تو ایم کیو ایم سے اس خلا ء کو آسانی سے پر کیا جا سکتا ہے۔