رسائی کے لنکس

رابرٹ ملر کانگریس کے سامنے پیش ہونے پر آمادہ


دو سال طویل تحقیقات کے دوران رابرٹ ملر نے اب تک صرف ایک بار اس معاملے پر لب کشائی کی ہے۔ (فائل فوٹو)
دو سال طویل تحقیقات کے دوران رابرٹ ملر نے اب تک صرف ایک بار اس معاملے پر لب کشائی کی ہے۔ (فائل فوٹو)

امریکہ میں 2016ء کے صدارتی انتخابات میں روس کی مداخلت کی تحقیقات کرنے والے خصوصی تفتیش کار رابرٹ ملر نے کانگریس کے سامنے پیش ہو کر بیانِ حلفی دینے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔

کانگریس کے ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی برائے عدلیہ اور انٹیلی جینس کمیٹی کے ڈیموکریٹس سربراہان کے مطابق رابرٹ ملر 17 جولائی کو دونوں کمیٹیوں کے مشترکہ اجلاس میں شریک ہوں گے۔

جوڈیشری کمیٹی کے سربراہ جیرالڈ نیڈلر اور انٹیلی جینس کمیٹی کے سربراہ ایڈم شِف کی جانب سے منگل کو جاری ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں کمیٹیوں نے رابرٹ ملر کو پیش ہونے کا قانونی حکم جاری کیا تھا جس پر وہ اجلاس میں آنے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔

امریکی محکمۂ انصاف نے 2016ء کے صدارتی انتخابات میں روس کی مداخلت کے الزامات کی تحقیقات کی ذمہ داری مئی 2017ء میں رابرٹ ملر کو سونپی تھی۔ بعد ازاں ملر تحقیقات کا دائرہ صدر ٹرمپ کی جانب سے تحقیقات کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے الزامات تک وسیع ہو گیا تھا۔

رابرٹ ملر نے رواں ماہ مارچ میں اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد رپورٹ اٹارنی جنرل کو پیش کر دی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر انتخابات سے قبل یا اس کے دوران روس کے ساتھ ساز باز کرنے کا الزام ثابت نہیں ہوا۔

البتہ ملر نے اپنی رپورٹ میں صدر کو انصاف اور تحقیقات کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے الزام سے مکمل بری الذمہ قرار نہیں دیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے صدر کے خلاف مقدمہ چلانے کی سفارش نہیں کی تھی بلکہ یہ معاملہ محکمۂ انصاف پر چھوڑ دیا تھا۔

بعد ازاں امریکی اٹارنی جنرل ولیم بر نے صدر کے خلاف سفارشات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ محکمۂ انصاف اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ صدر کے خلاف مقدمہ چلانے کا جواز نہیں۔

امریکی محکمۂ انصاف نے رپورٹ کے کچھ حصے حذف کر دیے تھے جس پر کانگریس کے ڈیموکریٹ ارکان اور محکمۂ انصاف کے درمیان قانونی لڑائی جاری ہے۔

ایوانِ نمائندگان میں ڈیموکریٹس کی اکثریت ہے جو ایوان کی کمیٹیوں کے ذریعے محکمۂ انصاف سے مکمل رپورٹ اور متعلقہ مواد دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ وہ خود شواہد کا جائزہ لے کر اس بات کا فیصلہ کر سکیں کہ آیا صدر کےخلاف کسی تادیبی کارروائی کا جواز ہے یا نہیں۔

دو سال طویل تحقیقات کے دوران رابرٹ ملر نے اب تک صرف ایک بار اس معاملے پر لب کشائی کی ہے اور اگر وہ 17 جولائی کو ایوان کی کمیٹیوں کے روبرو پیش ہوئے تو یہ دوسرا موقع ہو گا جب وہ اپنی تحقیقات سے متعلق کوئی سرِ عام کوئی بات کریں گے۔

گزشتہ ماہ ایک پریس کانفرنس میں رابرٹ ملر نے کہا تھا کہ صدر کے خلاف فوجداری کارروائی کی سفارش کرنا ان کی ذمہ داریوں میں شامل نہیں تھا۔

اپنی پہلی اور اب تک کی واحد پریس کانفرنس میں رابرٹ ملر کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کے خلاف انتخابات میں روس کے ساتھ ساز باز کرنے کے 'کافی' شواہد نہیں ملے۔ لیکن انہوں نے صدر کو تحقیقات کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے الزام سے بری نہیں کیا۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ عندیہ بھی دیا تھا کہ اس بات کا فیصلہ کانگریس کی صوابدید پر ہے آیا وہ صدر کا مواخذہ کرنا چاہتی ہے یا نہیں۔

کانگریس کے کئی ڈیموکریٹ ارکان رابرٹ ملر کی تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں صدر کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں جس میں انہیں تاحال کامیابی نہیں ہوئی ہے۔

XS
SM
MD
LG