قرآن ميں چار مہينوں ذيقعد، ذي الحج، محرم اور رجب کا احترام والے مہینوں کے طور پر ذکرآیا ہے۔ اسلام سے پہلے بھی ان مہينوں ميں جنگ کو ناجائز سمجھا جاتا تھا۔ دس محرم الحرام کا دن تاريخ انسانی ميں انتہائی اہميت کا حامل ہے، اس دن اسلامی تاریخ کے بہت سے اہم واقعات رونما ہوئے۔
علامہ کاظم رضا نے اسلامی کیلنڈر کے پہلے مہینے کی عظمت بیان کرتے ہوئے بتایا کہ محرم الحرام کے مہینے میں "دین کی بقا ہوئی۔ دین کو وہ شان وشوکت ملی کہ دین ختم ہو رہا تھا لیکن اس کی عظمت کے لیے آٹھ ذی الحجہ کو حضرت امام حسین نے باندھے ہوئے احرام کھول دیے اور کربلا کے میدان میں جا کر وہ کردار ادا کیا جس کے ذریعے دنیا کو پیغام دیا کہ حلال کیا ہے اور حرام کیا۔"
"یہ احترام کا مہینہ ہے، یہ وہ مہینہ ہے جس میں کسی کو مارنا، کسی کے اوپر حملہ کرنا، جنگ کرنا اسلامی حکومت میں سختی سے ممنوع ہے۔"
اسلامی تاریخ کے مطابق دس محرم کو حضرت آدم کی توبہ قبول ہوئی۔ اسی روز حضرت نوح عليہ السلام کی کشتی کنارے لگی۔ نمرود نے جس دن حضرت ابراہيم کو آگ ميں ڈالا اور وہ گلزار بنی وہ بھی دس محرم کا دن تھا۔ حضرت يونس دس محرم ہی کو مچھلی کے پيٹ سے باہر تشريف لائے اور دس محرم ہی کے دن حضرت موسیٰ اور ان کی قوم کو فرعون سے نجات ملی۔
جمعیت علماء پاکستان کے رہنما اور مذہبی سکالر قاری زوار بہادر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ روايات کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ عليہ وسلم جب مدينہ تشريف لائے تو يہوديوں کو فرعون سے نجات ملنے کی خوشی ميں دس محرم کو روزہ رکھتے ديکھا، جس پر آپ نے فرمايا کہ موسیٰ سے ان کی نسبت زيادہ ہے لٰہذا وہ نويں محرم اور دسويں محرم کا روزہ رکھيں گے۔
جامعہ نعیمہ کے منتظم اعلیٰ اور مذہبی سکالر راغب نعیمی کہتے ہیں کہ حضرت امام حسين کو حضرت محمد صلی اللہ عليہ وسلم نے خود اپنا لخت جگر کہا ہے، ان کی شہادت دس محرم کو ہوئی تو يہ دن پہلے سے ہی متبرک تھا ليکن شہادت امام حسين نے اسے مزيد بڑا کر ديا ہے۔