حالانکہ بالی ووڈ کے گلو کار مکیش کندن لال سہگل کے بہت بڑے مداح تھے اور انہوں نے جب گانا شروع کیا تو کے ایل سہگل کا ہی انداز اختیا رکیا ۔ اسی لئے ان کے ابتدائی گانوں میں سہگل کی باز گشت صاف سنائی دیتی ہے ۔ بلکہ اس زمانے میں تو سامعین نے ایسا محسوس کیا تھا کہ سہگل تو ساز ہستی چھیڑ کر چھپ گئے مگر ان کی جگہ مکیش نے پوری کر دی ۔ اسی لئے سب سے پہلا گانا جو فلم میں مکیش نے گایا وہ تھا دل جلتا ہے تو جلنے دے ، آنسو نہ بہا فریادنہ کر ۔ یہ گانا نہ صرف سہگل کی آواز کی یاد دلاتا ہے بلکہ گانے کے بول بھی ایسے ہیں جیسے کہ سہگل کے گیتوں کے ہوا کرتے تھے ۔ مکیش تقریباً 20 برسوں تک فلمی دنیا پر چھائے رہے اور انہوں نے متعدد میوزیک ڈائریکٹروں کے ساتھ کام کیا ۔ لیکن انہوں نے فلموں میں سب سے زیادہ راج کپور کو آواز دی ۔ اسی لئے ان کی موت پر راج کپور نے جب خراج عقیدت پیش کیا تو یہی کہا کہ میری تو آواز ہی گم ہو گئی کیونکہ مکیش میری آواز تھے ۔
مکیش دہلی کے ایک متوسط پنجابی خاندان میں پیدا ہوئے تھے اور ا ن کا نام مکیش چندر ماتھر تھا ۔ اسکول کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ دہلی کے ایک سرکاری محکمے میں ملازم ہو گئے تھے لیکن کسی جلسے میں فلم ادا کار موتی لال نے ان کی آواز سنی تو وہ اس سے بہت مسحور ہو گئے اور انہیں ممبئی لے گئے ۔ وہاں انہوں نے فلم ’پہلی نظر‘ میں ان سے گانے ریکارڈ کروائے جس کے میوزیک ڈائریکٹر اس وقت کے مشہور سنگیت کار انل بسواس تھے اور وہ وہی گانا تھا
دل جلتا ہے تو جلنے دے
اسے آہ سلطان پوری نے لکھا تھا ۔ اس کے بعد تو مکیش کی آوا ز کے چرچے ہو نے لگے۔ ان سے متعدد موسیقاروں نے رابطہ قائم کیا اور پھر مکیش کو فلموں میں خوب کام ملنے لگا اور ان کی شہرت کو چار چاند لگ گئے ۔ ان کے گائے ہوئے گانوں نے فلموں کو حیات جاودانی بخش دی ۔ ان میں جس دیش میں گنگا بہتی ہے ، سنگم ، ملن ، پہچان ، شور ، روٹی کپڑا اور مکان اور کبھی کبھی جیسی فلمیں ہیں ۔ خاص طور سے فلم ”کبھی کبھی “ کے گانے ”میں پل دو پل کا شاعر ہوں“ کو کافی شہرت حاصل ہوئی ۔ فلم’ تیسری قسم ، کے گانوں’سجن رے جھوٹ مت بولو ۔ خدا کے پاس جانا ہے ‘ بھی بچے بچے کی زبان پر تھا ۔
انہیں فلم فیئر کے علاوہ کئی دوسرے بھی اہم انعامات و اعزازات ملے ۔ 27 اگست سنہ 1976 کو اس وقت ان کی موت واقع ہو گئی جب وہ امریکہ کے ڈی ٹورائٹ، مشی گن میں ایک پروگرام پیش کرنے کے لئے گئے ہوئے تھے اور ا س طرح سے فلمی گیتوں کا وہ باب ختم ہو گیا جس کا آغاز پانچویں دہائی میں ہوا تھا ۔ مکیش نے اپنی آواز سے تقریباً دو دہائیوں تک لوگوں کو مسحور رکھا ۔ آج بھی جب ان کے گانے بجائے جاتے ہیں تو ایک منفرد آواز سننے کو ملتی ہے ۔یقیناً یہ آواز مکیش کی تھی۔جس کا اپنا منفرد لب و لہجہ تھا ۔
مقبول ترین
1