رسائی کے لنکس

مخالف ہوا کا شہر


کراچی کا ووٹر ہمیشہ مرکزی دھارے کی سیاست کا مخالف رہا ہے۔

ساٹھ کی دہائی میں ہوئے الیکشن میں جب ملک بھر میں ایوب خان کو کثیر تعداد میں ووٹ ملے تھے، کراچی فاطمہ جناح کے ساتھ تھا۔ ستر کی دہائی میں بھٹو کی مقبولیت عروج پر تھی، لیکن کراچی میں مذہبی جماعتیں کامیاب تھیں۔ اسی کی دہائی میں ضیا الحق کے ریفرنڈم میں سب سے زیادہ نہیں کے ووٹ کراچی کے تھے۔ جمہوری ادوار میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی حکومتیں بناتی رہیں۔ لیکن کراچی میں ایم کیو ایم راج کرتی رہی۔

لیکن، ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے قومی سیاست سے کٹ جانے اور پھر الیکشن کے بائیکاٹ کے بعد صورتحال بدل چکی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان میدان میں ہے لیکن اس میں دھڑے بندی ہے۔ کیا وہ پہلے کی طرح نشستیں جیت پائے گی؟ سیاست دان اور تجزیہ کار ہی نہیں، ووٹر بھی الجھن کا شکار ہیں۔

ایم کیو ایم کی مخالف سیاسی جماعتیں کراچی میں بازی پلٹانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ پیپلزپارٹی کی رہنما شہلا رضا اس بار این اے 243 سے امیدوار ہیں جو روایتی طور پر ایم کیو ایم کا حلقہ تھا۔ لیکن اس بار یہاں عمران خان بھی امیدوار ہیں۔ شہلا رضا نے وائس آف امریکا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے عوام کو اس بار سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔ ماضی میں وہ جن لوگوں کو ووٹ دیتے رہے، انھوں نے تشدد کی سیاست کی۔

پیپلز پارٹی سندھ میں دس سال سے حکمراں ہے اور اسی دوران کراچی کا حال زیادہ خراب ہوا ہے۔ کیا پیپلزپارٹی کراچی کے ووٹرز کو راغب کرسکے گی؟ شہلا رضا اس بارے میں کہتی ہیں کہ شہر کے فنڈز ایم کیو ایم کے پاس رہے۔ اس وقت بھی میئر اس کا ہے جبکہ سابق ادوار میں وہ حکومت میں شریک تھی۔ اس نے کراچی کے لیے کچھ نہیں کیا۔ پیپلزپارٹی نے سڑکیں بنائیں، اسپتالوں کی حالت بہتر کی اور یونیورسٹیاں قائم کیں۔

رشید گوڈیل ایم کیو ایم کے سابق رکن قومی اسمبلی ہیں۔ اس بار وہ الیکشن تو نہیں لڑ رہے لیکن ان کی ہمدردیاں تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کراچی کو ماضی میں اس لیے نقصان ہوا کہ ووٹرز نے مرکزی دھارے کی جماعتوں کو ووٹ نہیں دیے۔ حکمراں جماعتوں نے کراچی کا خیال نہیں کیا جس کی وجہ سے یہاں احساس محرومی پیدا ہوا۔ اس بار یہ شہر قومی سطح کی پارٹی کو ووٹ دے گا۔

رشید گوڈیل نے بتایا کہ وہ جس حلقے سے الیکشن لڑنا چاہتے تھے، وہ دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔ ان دونوں حلقوں میں اچھے امیدوار موجود ہیں اس لیے الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے توقع ظاہر کی کہ کراچی میں ٹرن آؤٹ ساٹھ فیصد رہے گا اور تحریک انصاف کے علاوہ پاک سرزمین پارٹی کو بھی کامیابی ملے گی۔

سماجی رہنما جبران ناصر دو ہزار تیرہ میں کراچی کے حلقے 250 سے الیکشن لڑے تھے اور صرف دو سو ترپن ووٹ حاصل کرسکے تھے۔ یہ حلقہ اب این اے 247 بن گیا ہے اور جبران ناصر ایک بار پھر امیدوار ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس بار سیاسی جماعتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اس لیے نوجوانوں کو آگے آکر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

کیا بہتر نہیں ہوتا کہ آپ کسی پارٹی کو جوائن کرلیتے؟ ایک اکیلا شخص اور آزاد امیدوار کیا انقلاب لاسکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں جبران ناصر نے کہا کہ جو جماعتیں اسمبلی میں پہنچتی رہی ہیں، وہ کون سا انقلاب لے آئیں؟ پڑھے لکھے، ایمان دار نئے لوگ اسمبلی میں پہنچیں گے تو ملک کے حالات بدلیں گے۔

حریف جماعتوں اور امیدواروں کے برعکس ایم کیو ایم کے رہنماؤں کو یقین ہے کہ کراچی ان کا ہے اور وہ پہلے کی طرح کامیابی حاصل کریں گے۔ لیکن غیر جانب دار تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایم کیو ایم کے ووٹ اور نشستیں کم ملیں گی۔

XS
SM
MD
LG