اسلام آباد —
پاکستان کی ایک خصوصی عدالت نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر غداری کے مقدمے میں فرد جرم عائد کر دی ہے۔
پیر کو خصوصی عدالت نے بیرون ملک جانے سے متعلق فوج کے سابق سربراہ کی دو درخواستوں کو نمٹاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اس بارے میں احکامات دینا اُس کے دائرہ اختیار میں نہیں۔
سابق صدر پرویز مشرف انتہائی سخت سکیورٹی میں راولپنڈی میں امراض قلب کے اسپتال سے خصوصی عدالت میں پیش ہوئے۔ جہاں تین رکنی بینچ میں شامل جسٹس طاہرہ صفدر نے آئین توڑنے سے متعلق پانچ الزامات پر مشتمل فرد جرم پڑھ کر سنائی۔
پرویز مشرف نے خود پر لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ تمام الزامات جھوٹے ہیں۔ سابق صدر نے کہا کہ اُنھوں نے 44 سال فوج میں خدمات سر انجام دیں اور اُنھیں اب غدار قرار دیا جا رہا ہے جو اُن کی دل آزاری کا سبب بن رہا ہے۔
سابق صدر کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے ملک کی معیشت کو بہتر بنایا اور وہ کبھی بدعنوانی میں ملوث نہیں رہے۔
پیر کو مقدمے کی سماعت کے دوران پرویز مشرف کی طرف سے بیرسٹر فروغ نسیم نے دلائل دیے اور اُنھوں نے عدالت سے سابق صدر کے خلاف فرد جرم عائد نا کرنے کی استدعا کی جسے مسترد کر دیا گیا۔
دوران سماعت سابق صدر نے اپنے وکیل کی وساطت سے اپنی علیل والدہ کی عیادت اور اپنے علاج کے بیرون ملک جانے کی اجازت طلب کی۔ لیکن پیر کی سہ پہر عدالت نے اس بارے میں اپنے فیصلے میں کہا کہ وفاقی حکومت نے پرویز مشرف کا نام اُن افراد کی فہرست میں شامل کیا جن کے بیرون ملک جانے پر پابندی ہوتی ہے، اس لیے حکومت کو ہی اس بارے میں فیصلہ کرنا ہے۔
سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف فرد جرم عائد کیے جانے کے بعد استغاثہ کے وکلا کی ٹیم میں شامل طارق حسن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’آج کی جو کارروائی ہوئی اس سے ایک چیز تو واضح ہو گئی ہے کہ اس مقدمے میں اور کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی… تو اب یہ مقدمہ شروع ہو گیا ہے۔‘‘
سابق صدر دو جنوری سے راولپنڈی میں امراض قلب کے اسپتال میں زیر علاج ہیں اور دل کے عارضے کے علاج کے لیے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں۔
جب کہ سابق صدر کی بیرون ملک مقیم والدہ کی صحت بھی رواں ہفتے خاصی خراب ہو گئی تھی جس کے بعد اُنھیں شارجہ کے ایک اسپتال منتقل کر دیا گیا۔
سابق فوجی صدر کو نومبر2007ء میں آئین کو معطل کرتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے تحت غداری کے مقدمے کا سامنا ہے۔
جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت گزشتہ سال 24 دسمبر سے وفاق کی درخواست پر سابق صدر کے خلاف غداری سے متعلق مقدمے کی سماعت کر رہی ہے۔
عدالت نے پرویز مشرف کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کرتے ہوئے اُنھیں ہر صورت 31 مارچ کو پیش ہونے کا حکم دے رکھا تھا۔
پیر کو خصوصی عدالت نے بیرون ملک جانے سے متعلق فوج کے سابق سربراہ کی دو درخواستوں کو نمٹاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اس بارے میں احکامات دینا اُس کے دائرہ اختیار میں نہیں۔
سابق صدر پرویز مشرف انتہائی سخت سکیورٹی میں راولپنڈی میں امراض قلب کے اسپتال سے خصوصی عدالت میں پیش ہوئے۔ جہاں تین رکنی بینچ میں شامل جسٹس طاہرہ صفدر نے آئین توڑنے سے متعلق پانچ الزامات پر مشتمل فرد جرم پڑھ کر سنائی۔
پرویز مشرف نے خود پر لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ تمام الزامات جھوٹے ہیں۔ سابق صدر نے کہا کہ اُنھوں نے 44 سال فوج میں خدمات سر انجام دیں اور اُنھیں اب غدار قرار دیا جا رہا ہے جو اُن کی دل آزاری کا سبب بن رہا ہے۔
سابق صدر کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے ملک کی معیشت کو بہتر بنایا اور وہ کبھی بدعنوانی میں ملوث نہیں رہے۔
پیر کو مقدمے کی سماعت کے دوران پرویز مشرف کی طرف سے بیرسٹر فروغ نسیم نے دلائل دیے اور اُنھوں نے عدالت سے سابق صدر کے خلاف فرد جرم عائد نا کرنے کی استدعا کی جسے مسترد کر دیا گیا۔
دوران سماعت سابق صدر نے اپنے وکیل کی وساطت سے اپنی علیل والدہ کی عیادت اور اپنے علاج کے بیرون ملک جانے کی اجازت طلب کی۔ لیکن پیر کی سہ پہر عدالت نے اس بارے میں اپنے فیصلے میں کہا کہ وفاقی حکومت نے پرویز مشرف کا نام اُن افراد کی فہرست میں شامل کیا جن کے بیرون ملک جانے پر پابندی ہوتی ہے، اس لیے حکومت کو ہی اس بارے میں فیصلہ کرنا ہے۔
سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف فرد جرم عائد کیے جانے کے بعد استغاثہ کے وکلا کی ٹیم میں شامل طارق حسن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’آج کی جو کارروائی ہوئی اس سے ایک چیز تو واضح ہو گئی ہے کہ اس مقدمے میں اور کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی… تو اب یہ مقدمہ شروع ہو گیا ہے۔‘‘
سابق صدر دو جنوری سے راولپنڈی میں امراض قلب کے اسپتال میں زیر علاج ہیں اور دل کے عارضے کے علاج کے لیے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں۔
جب کہ سابق صدر کی بیرون ملک مقیم والدہ کی صحت بھی رواں ہفتے خاصی خراب ہو گئی تھی جس کے بعد اُنھیں شارجہ کے ایک اسپتال منتقل کر دیا گیا۔
سابق فوجی صدر کو نومبر2007ء میں آئین کو معطل کرتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے تحت غداری کے مقدمے کا سامنا ہے۔
جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت گزشتہ سال 24 دسمبر سے وفاق کی درخواست پر سابق صدر کے خلاف غداری سے متعلق مقدمے کی سماعت کر رہی ہے۔
عدالت نے پرویز مشرف کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کرتے ہوئے اُنھیں ہر صورت 31 مارچ کو پیش ہونے کا حکم دے رکھا تھا۔