راحت فتح علی خان شاید مجھ سے مصلحتاً اتفاق نہ کریں، لیکن میں جو کچھ کہوں گا ۔۔’آپ بیتی‘ کہوں گا، سچ کہوں گا۔ وہ بہت بڑے آرٹسٹ ہیں اور میں ادنیٰ سا لکھاری۔۔ یوں ان کا مجھ سے متفق ہونا ضروری بھی نہیں۔۔۔مگرحقیقت یہ ہے کہ میں راحت فتح علی خان کا مقروض ہوں۔
مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میں بھی انہی لوگوں میں سے ایک ہوں جو ادھار مانگ کر کپڑے نہیں پہنتے، قرض لے کر کھانا نہیں کھاتے ۔۔۔اور ۔۔۔ مہینے کا سامان پڑوس سے نہیں مانگتے۔ لیکن، میوزک اور گانے ’مفت ‘میں سنتے ہیں۔
ہاں۔ میں اس حقیقت کو بھی اچھی طرح جانتا ہوں کہ ہمارے آرٹسٹ جو تل تل کر کے ۔۔۔اچھے میوزک۔۔۔اچھے آرٹ ۔۔اور اچھی پرفارمنس کے لئے نامساعد حالات میں بھی خود کو شوق کے ہاتھ گروی رکھ دیتے ہیں ۔۔۔لیکن اس کے باوجود میں انہی کے گانے، انہی کا میوزک اور انہی کی شب روز محنت کا ثمر آسانی سے اور مفت میں ہضم کر جاتا ہوں۔
یہ جرم میں بار بار کرتا ہوں۔۔۔کہیں سے گانے ڈاوٴن کرکے ۔۔۔کہیں سے ڈی وی ڈی ادھار مانگ کر اور کہیں سے ۔۔۔ایم پی تھری کی شکل میں ۔۔۔ کبھی یو ایس بی لے کر۔۔۔اور کبھی یوٹیوب یا ڈیلی موشن پر سن اور دیکھ کر۔۔
میں نے شاید یہ کبھی نہیں سوچا کہ میرے اس عمل سے کئی فنکار ابھرنے سے پہلے ہی دم توڑ گئے۔۔۔ماضی کی بے شمار میوزک کمپنیز کو تالے لگ گئے۔۔۔انگنت سازنددوں کو کھانے کے لالے پڑ گئے۔۔اسٹوڈیوز ویرانے میں ڈوب گئے اور کئی قیمتی ساز وں کے تار انسانی سانوں کی طرح اکھڑ کر بے جان ہوگئے۔
ہاں۔ میں راحت فتح علی کا مقروض ہوں۔۔۔۔ایسے حالات میں جبکہ ملکی فضاء میں بارود کی بو نے ایک ایک کرکے تفریح کے سارے راستے مستود کردیئے، سر اور سنگیت کی محفلیں اجڑ گئیں۔۔میوزک البم کا دور ختم ہوگیا۔۔۔تو بھی راحت نے انتہائی محبت سے میوزک لورز کے لئے اپنا ایک البم ’بیک ٹو لو‘ نکالا۔
امید یہ تھی کہ لوگ میوزک کے عشق میں دیوانہ وار اس کی طرف لوٹ آئیں گے ، اس لئے اس کا نام ’بیک ٹو لو‘ رکھا گیا۔ لیکن، افسوس ہم اپنے فنکار کو۔۔۔اپنی زبان کو۔۔۔۔اپنے میوزیشنز کو ۔۔۔۔اپنے شاعروں کو کوشش کے باوجود وہ پذیرائی نہ دے سکے جو اسے ملنی چاہئے تھی۔
میں جانتا ہوں شاید کسی مصلحت کی آڑ میں راحت اس سے اتفاق نہ کریں۔ لیکن، مجھے اپنوں سے ۔۔۔اپنے لوگوں سے اور خود اپنے آپ سے یہ گلہ ضرور رہے گا کہ ہم نے اس آرٹسٹ کو بھی ہاتھوں ہاتھ نہیں لیا۔۔جس کے بعد شاید پاکستان میوزک انڈسٹری کے پاس کچھ نہیں بچے گا۔ ۔۔۔چاہتا تو میں بھی ’بیک ٹو لو‘ کی ڈی وی ڈی خرید کر میوزک انڈسٹری کی نہایت قلیل سی خدمت کرسکتا تھا۔ لیکن، میرے اندر کے ’ادلی مفت خورے‘ نے ایسا نہیں کرنے دیا اور میں راحت فتح علی کا مقروض ہوگیا۔۔۔
نئی البم کو بالی ووڈ کی شہرت کے ’پر‘ نہیں لگے
راحت فتح علی خان کے منیجر اور میوزک کمپنی ’پی ایم ای‘ کے روح رواں عامر حسن کا ’وائس آف امریکہ‘ سے تبادلہ خیال میں کہنا ہے ’خان صاحب نے ایسے دور میں پرسنل میوزک البم لاوٴنچ کرکے بہت حوصلے کا کام کیا ہے جس میں لوگوں میں موسیقی سننے کا شوق فلم تک ہی محدود ہوگیا ہے۔ غیر فلمی شاعری اور میوزک کا دور اب نہیں رہا، لوگ ڈی وی ڈی خریدنے کے بھی کم ہی روادار ہیں۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ’بیک ٹو لو‘ خان صاحب کی اپنے کام سے لگن اور انتہائی درجے کی دیوانگی کا ثمر ہے ۔‘
عامر آگے بتاتے ہیں ’خان صاحب نے امریکہ، لاہور، کراچی، دبئی اور دیگرجگہوں پر اس البم کو لاوٴنچ کیا۔۔۔بے حساب پیسہ اور وقت لگایا۔ لیکن، بدقسمتی سے کئی وجوہات کے سبب اسے پاکستان میں اتنی پذیرائی بھی نہیں ملی جتنی بھارت میں ملی۔ وہاں لوگ اسے دیوانہ وار ویلکم کر رہے ہیں۔ لیکن، ہمارے یہاں دہشت گردی، سیاسی ہڑتالوں اور ہنگاموں کے سبب اسے خاطرخواہ پذیرائی نہیں مل سکی۔ پھر شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نئی البم غیر فلمی ہے۔۔۔اگر اسے بالی ووڈ کی شہرت کے پر لگ جاتے تو یقیناً اسے مزید پہچان ملتی۔‘
ایک گانا جو ’وائرل‘ بن گیا
’بیک ٹو لو‘کا ایک گانا ’ضروری تھا‘۔۔۔ یو ٹیوب پر وائرل کی طرح پھیلا ہوا ہے۔ اب تک کئی لاکھ لوگ اسے دیکھ چکے ہیں۔ میرا ذاتی نظریہ یہ ہے کہ اگر اسی میوزک کو خرید کر دیکھا اور سنا جاتا تو شاید ہماری میوزک انڈسٹری پرطاری جمہود کسی حد تک ہی سہی ٹوٹ ضرور جاتا۔میوزک انڈسٹری کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں کچھ مدد ملتی۔ ملک کا امیج بہتر ہوتا اور انگنت نئے فنکاروں کو بھی آگے آنے کا موقع ملتا۔۔۔لیکن، افسوس پائریسی ہمارے یہاں کوئی جرم نہیں۔۔۔حالانکہ یہ میری نظر میں انگنت افراد کا معاشی قتل ہے۔
پائریسی کی دیمک
فنی اعتبار سے انتہائی بہترین البم دینے کے باوجود پائریسی کا شکار ہونے والے کوئی ایک دو فنکار نہیں ہیں، بلکہ سجاد علی، علی حیدر، جواد احمد، شہزاد رائے اور ابرارالحق سمیت بہت سے ’موسٹ ٹیلنٹنڈ سنگرز‘ ایسے ہی حالات کا شکار ہوچکے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج یہ فنکار کسی نئی پرسنل البم کا تجربہ کرتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں اور اگر کوئی نئی البم لاتا بھی ہے تو بہت زیادہ احتیاط اور ہر پہلو سے نقصان کا جائزہ لینے کے بعد۔اور ظاہر ہے کہ جہاں اتنا زیادہ محتاط انداز اختیار کرنا پڑے وہاں زیادہ اور بہترین کام سامنے نہیں آسکتا۔
میوزک کمپنی کا مالک پولٹری فارم چلانے پر مجبور
ایک دور تھا کہ جب ’ایگل میوزک کمپنی‘، ’ساوٴنڈ ماسٹر‘، ’پی ایم سی‘ ، ’سونک‘ اور دوسری کئی بڑی کمپنیز نت نئے فنکاروں کی نئی نئی البم مارکیٹ کررہی تھیں۔ لیکن، اب یہ صورتحال نہیں رہی۔ میرے لئے یہ معلومات انتہائی افسوسناک اور حیران کن تھیں کہ ماضی کی ایک بڑی میوزک کمپنی کے مالک ان دنوں ہائی وے پر ایک پولٹری فارم چلا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ شاید اسی لئے ہوا کہ دنیا بھر میں پائریسی کو یا عرف عام میں کہیں تو بغیر کچھ خرچ کئے میوزک سننے والوں کو آرٹسٹوں اور میوزیشنز کا دشمن سمجھا جاتا ہے۔ لیکن، حیرت انگیز طور پر پاکستان میوزک انڈسٹری پائریسی سے لاتعلق نظرآتی ہے۔
پائریسی کے خلاف ہتھیار ڈالنے والے
گذشتہ کئی سالوں میں پاکستان میں میوزک انڈسٹری نے ترقی کی کئی منازل طے کیں اور پاکستانی گلوکاروں نے دنیا بھر میں اپنے فن کا لوہا بھی منوایا۔ لیکن، پائریسی کے بارے میں نہ تو میوزیشنز کی طرف سے اور نہ ہی میوزک پروڈیوس کرنے والی کمپنیوں کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے آیا۔ سب نے نقصان کا سامنا تو کیا، لیکن اس کے خلاف عمل کچھ نہیں کیالہذا اس کے بھیانک نتائج سب کے سامنے ہیں۔
واحد آسان حل
میرے تئیں، اس مسئلے کا واحد اور آسان حل یہی ہے کہ اگر آپ موسیقی کے دلدادہ ہیں اور’نئی کونپلوں‘ کو پھلتے پھولتے دیکھنا چاہتے ہیں تو جس طرح ادھار مانگ کر کپڑے نہیں پہنتے اور قرض لے کر کھانا نہیں کھاتے ۔۔۔اسی طرح میوزک بھی ’مفت ‘میں سننا چھوڑ دیجئے۔۔۔
راحت فتح علی سے میرا وعدہ
راحت فتح علی خان سے میرا بھی یہی وعدہ ہے کہ ۔۔۔شام کو گھر لوٹتے وقت ان کا ’قرض‘ ضرور ادا کردوں گا۔۔ اسے آپ راحت کی ایک اچھی اور بہترین میوزیکل کاوش کے لئے میری طرف سے خراج تحسین بھی تصور کر سکتے ہیں۔