افغانستان میں طالبان حکومت کی جانب سے خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی کے اقدام پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔عالمی سطح پر تنقید کا سامنا کرنے والے طالبان اپنے اس اقدام کی وصاحتیں دے رہے ہیں۔
طالبان کے اعلیٰ تعلیم کے وزیر نیدا محمد نادم نے طالبان کے زیر کنٹرول براڈکاسٹر 'آر ٹی اے' کو دیے گئے ایک انٹرویو میں خواتین کو جامعات جانے سے روکنے کی چار وجوہات بیان کیں۔
انہوں نے کہا کہ ان وجوہات میں کالجز میں کسی ایک طالبہ کی جانب سے بھی گزشتہ 16 ماہ میں طالبان قیادت کی ہدایات پر عمل نہ کرنا، ہاسٹلز میں خواتین کی بغیر سرپرست موجودگی، حجاب نہ پہننے اور مخلوط تعلیم شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 160 مضامین میں سے کچھ اسلام اور 'افغان وقار' کے خلاف ہیں، اسی وجہ سے طالبان حکومت نے لڑکیوں اور خواتین کے لیے اعلیٰ تعلیم معطل کرنے کا فیصلہ کیا۔
خیال رہے کہ طالبان نے منگل کو خواتین کی سرکاری او ر نجی جامعات میں داخلے پر پابندی لگا دی تھی۔ طالبان کے اقتدار میں پہلے ہی لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول جانے پر پابندی ہے۔
طالبان حکام کا دعویٰ ہے کہ ان کی پالیسیاں اسلامی تعلیمات پر مبنی ہیں۔ تاہم مسلم ممالک اور اسلامی اسکالرز کی اکثریت اس دعوے کو مسترد کرتی ہے۔
مصر کی معروف جامعۃ الازہر کے امام اعظم احمد الطیب نے کہا کہ الازہر افغانستان میں خواتین کو جامعات کی تعلیم سے روکنے کے فیصلے پر 'گہرے' افسوس کا اظہار کرتی ہے۔ کیوں کہ یہ فیصلہ شریعت سے متصادم ہے۔
احمد الطیب نے کہا کہ وہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ کسی ایسے الزام کو نہ مانیں جس میں کہا جائے کہ اسلام میں خواتین کی تعلیم پر پابندی ہے۔
انہوں نے کہا کہ درحقیقت اسلام اس طرح کی پابندی کی سختی سے مذمت کرتا ہے کیوں کہ یہ ان قانونی حقوق سے متصادم ہے جو اسلام نے خواتین اور مردوں کو مساوی طور پر دیے ہیں۔
جامعۃ الازہر کے امام نے افغانستان کے برسرِاقتدار حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ اس فیصلے پر نظرثانی کریں۔
مسلم ممالک کا افغان طالبان کے اقدام پر اظہارِ مذمت
دوسری جانب سعودی عرب ، ترکی اور متحدہ عرب امارات نے بھی افغان طالبان کی جانب سے خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی کی متفقہ طور پر مذمت کی ہے۔
سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے منگل کو ایک بیان میں کہا تھا کہ سعودی عرب کو افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے افغان لڑکیوں کو جامعات کی تعلیم کے حق سے روکنے پر حیرت اور افسوس ہے۔ اور وہ اس فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کرتی ہے۔
متحدہ عرب امارات نے ایک بیان میں کہا کہ خواتین کو جامعات میں جانے سے روکنا اور اس سے قبل لڑکیوں کی سیکنڈری تعلیم پر پابندی لگانا بنیادی انسانی حقوق کے خلاف اور اسلامی تعلیمات سے متصادم ہے۔ اسے فوری طور پر واپس لیا جانا چاہیے۔
وہیں ترکی، پاکستان، انڈونیشیا، قطر اور مسلم دنیا کے دیگر ممالک نے بھی طالبان کی جانب سے خواتین کی تعلیم اور کام پر پابندی کے خلاف اسی طرح کے بیانات جاری کیے ہیں۔
علاوہ ازیں بدھ کو اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے کہا تھا کہ تظیم افغانستان کے موجودہ حکمرانوں کے ساتھ اپنے رابطوں کی پالیسی پر قائم ہے لیکن اس فیصلے کی مذمت کرتی ہے اور کابل سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اپنے وعدوں اور اصل فیصلوں کے درمیان مستقل مزاجی کو برقرار رکھنے کی خاطر فیصلے کو واپس لے۔