نئی دہلی کے مضافات کے ایک کاروباری علاقے سے ، مسلمان اپنی جانیں بچانے کے لئے فرار ہو رہے ہیں ۔رہائشیوں، پولیس والوں اور ایک کمیونٹی گروپ نے بتایا کہ تقریباً تین ہزار سے زیادہ غریب مسلمان اپنے کاروبار بند کر کے بھاگ گئے ہیں، کیونکہ انہیں خطرہ ہے کہ وہ ہندو مسلم فسادات کاشکار نہ ہو جائیں یا مسلمانوں پر گاہے بگاہے ہونے والے حملوں کا نشانہ نہ بن جائیں ۔
جمعیت علمائے ہند کے گروگرام کے صدر مفتی محمد سلیم کا اندازہ ہے کہ تشدد کے بعد 3000 سے زیادہ مسلمان ضلع چھوڑ چکے ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے نمائندے نے جب ان دو بڑی کچی آبادیوں کا اس کے ایک ہفتے سے زیادہ عرصے بعد دورہ کیا جہاں بھارتی دار الحکومت سے ملحقہ ریاست ہریانہ کےنوح اور گرو گام ضلعوں میں جھڑپوں میں سات افراد مارے گئے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ جومسلمانوں کی ملکیت والی دکانیں تھیں یا چھوٹی چھوٹی جھونپڑیاں یا گھرتھے وہ بند تھے ان کو تالے لگے ہوئے تھے۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ کچی آبادی والے اضلاع میں دو چھوٹے مسلم مزارات پر پتھراؤ، آتش زنی اور توڑ پھوڑ نے بھی سینکڑوں مسلمان خاندانوں کو اپنے ایک کمرے کے مکانات چھوڑنے اور باہر جانے سے پہلے ٹرین اسٹیشن پر پناہ لینے پر مجبور کیا۔
اپنے آبائی گاؤں بھاگ کر آنے والے ایک درزی رؤف اللہ جاوید، نے رائٹرز کو فون پر بتایا کہ
"ہم میں سے بہت سے لوگوں نے پوری رات ریلوے پلیٹ فارم پر گزاری کیونکہ وہ زیادہ محفوظ تھا،"
چار مسلمان دکانداروں نے فون پر بتایا کہ سخت گیر ہندو گروپوں کے ارکان نے ان سے ان کے کاروبار اور خاندانوں کے بارے میں پوچھ گچھ کی تھی۔
1,200 سے زیادہ مسلم خاندانوں کے گھر، ٹگرا گاؤں کے ایک حجام شاہد شیخ نے کہا کہ بہت سے مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ تھوڑی دیر کے لیےاس جگہ سے چلے جانا ہی بہتر ہے،انہوں نے مزید بتایا کہ مسلمانوں کو کرائے پر دی گئی دکانوں کے کچھ ہندو مالکان چاہتے تھے کہ وہ انہیں خالی کر دیں۔
یہ تشدد 31 جولائی کو حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ساتھ نظریاتی طور پر منسلک گروپوں کی طرف سے منعقدہ ایک ہندو مذہبی جلوس کو نشانہ بنانے پر شروع ہوا اور اس کی جوابی کارروائی میں ایک مسجد پر حملہ کیا گیا ۔
حملہ آوروں نے مسجد کے نائب امام حافظ محمد سعد پر تشدد کیا جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہو گئے ۔ ۔ پولیس نے 48 گھنٹوں میں بدامنی پر قابو پالیا۔
لیکن مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے اکاّ دکّا حملے جاری ہیں، اور ان خاندانوں کو خوفزدہ کر رہے ہیں جو روزی روٹی کی تلاش میں گڑ گاؤں کے نئے شہری مرکز میں آباد ہو گئے تھے - جہاں پانچ سو بڑی کمپنیوں میں سے 250 کے دفاتر ہیں –
بھارت کے اکثریتی ہندوؤں اور اقلیتی مسلمانوں کے درمیان گائے کا گوشت کھانے اور مسلمانوں کے ساتھ بین المذاہب شادیوں جیسے مسائل پر کشیدگی بڑھ گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی کی بی جے پی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہندو کارکنوں کی جانب سے انہیں زیادہ سے زیادہ نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
لیکن دوسری طرف بی جے پی لیڈروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی دونوں برادریوں کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہی ہیں لیکن جب سے وہ اقتدار میں آئے ہیں یہ واقعات کم ہوئے ہیں۔
گروگرام ، جو پہلے گڑگاؤں کے نام سے جانا جاتا تھا، پندرہ لاکھ سے زیادہ آبادی والا شہر ہے اس نے گوگل، امریکن ایکسپریس، ڈیل، سام سنگ، ارنسٹ اینڈ ینگ اور ڈیلوئٹ جیسی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو تشدد اور خلل کی پریشانی کے خطرات میں مبتلا کردیا ہے۔
ہریانہ پولیس نے کہا کہ انہوں نے تشدد کے سلسلے میں دونوں برادریوں کے 200 سے زیادہ مردوں کو گرفتار کیا ہے اور کچھ مسلمان جو بھاگ گئے تھے وہ اب واپس آنا شروع ہو گئے ہیں
ہریانہ کی بی جے پی حکومت کے وزیر داخلہ انیل وج نے کہا کہ انہیں کچھ مسلمانوں کے جانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں لیکن اب صورتحال مکمل طور پر قابو میں ہے۔
انہوں نے رائٹرز کو بتایا کہ "کوئی بھی مسلمانوں کو وہاں سے جانے کو نہیں کہہ رہا ہے اور ہم تمام فرقہ وارانہ حساس علاقوں میں مکمل سیکورٹی فراہم کر رہے ہیں۔
(خبر کا کچھ مواد رائیٹرز سے لیا گیا)
فورم