میانمار میں جمہوریت کے حق میں ہونے والے مظاہروں کی کوریج کرنے والے ایک صحافی کو بدھ کے روز تین ہفتوں تک حوالات میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا۔صحافی کا تعلق خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹڈ پریس سے تھا۔
صحافی تھین زاہ کو دارالحکومت ینگون کی بدنام زمانہ انسین جیل میں رکھا گیا تھا جہاں میانمار کے حکام سیاسی قیدیوں کو تحویل میں لینے کے بعد قید میں رکھتے ہیں۔
اے پی کی ایک رپورٹ کے مطابق جب زاہ جیل سے باہر آکر فوٹوگرافرز کو ہاتھ ہلا کر اپنی رہائی پر خوشی کا اظہار کر رہے تھے تو وہ پہلے سے بہت کمزور دکھائی دے رہے تھے۔
اس سے قبل ان کا کیس سننے والے جج نے زاہ کے خلاف لگائے گئے تمام الزامات کو ختم کرنے کا فیصلہ سنایا اور کہا کہ وہ مظاہروں کی کوریج کے دوران محض اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کر رہے تھے، جب انہیں گرفتار کیا گیا۔
میانمار کے حکام نے زاہ پر امن و امان کی صورت حال خراب کرنے کا الزام لگایا تھا، جس کی کم از کم سزا تین سال ہوتی ہے۔
رہائی کے بعد ان کے بھائی اور دوست زاہ کو گھر لے گئے جو ینگون کے اس علاقے میں واقع ہے جہاں اس وقت مارشل لا کا نفاذ ہے۔
میانمار میں یکم فروری کو فوجی بغاوت میں رہنما آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔ جمہوریت کے خلاف اس اقدام کے بعد ملک میں جمہوری سوچ رکھنے والے لوگ سراپا احتجاج ہیں۔
فوجی حکومت نے اس سلسلے میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کو کچلنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ معزول جمہوری حکومت کے رہنماوں کو قید کر رکھا ہے۔ کریک ڈاون کے دوران اب تک چالیس صحافیوں کو تحویل میں لیا گیا ہے۔
زاہ ان صحافیوں میں شامل تھے جنہیں 27 فروری کو ینگون میں ہونے والے ایک مظاہرے کے دوران پکڑا گیا تھا اور اب تک انہیں بغیر ضمانت کے جیل میں رکھا گیا تھا۔
ان حالات میں زاہ کی رہائی گھر کے تمام افراد کی زندگیوں کا ایک جذباتی لمحہ تھا اور ان کی والدہ نے آنسو بہاتے ہوئے اپنے بیٹے سے کہا کہ "ہم یہ سمجھے تھے کہ تمہیں دوبارہ کبھی دیکھ نہ پائیں گے۔"
زاہ کے والد باون نے ہاتھ میں شیمپو لیے اپنے بیٹے کا استقبال کیا۔ میانمار میں یہ روایت ہے کہ جب کوئی جیل سے رہا ہو کر واپس گھر آتا ہے تو اسے گھر داخل ہونے سے پہلے اپنے سر کے بال دھونا ہوتے ہیں۔
زاہ کے لیے رہائی کے بعد گھر میں پہلے کھانے میں مچھلی کا سالن بھی شامل تھا۔
زاہ نے بتایا کہ جیل میں وہ بہت پریشان رہے اور اپنا 33واں جنم دن بھی وہیں گزارا۔
اپنی آزادی پر تو زاہ خوش تھے لیکن وہ ان بہت سے صحافیوں کے لیے فکر مند تھے جو ابھی تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان لوگوں کو جلد از جلد رہائی نصیب ہو۔