میانمار کی فوج نے کہا ہے کہ اس نے مغربی ریاست راکھین میں آباد روہنگیا مسلمانوں پر کوئی مظالم نہیں ڈھائے اور نہ ہی اس کے اہلکار مسلمانوں کے قتل اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں ملوث ہیں۔
تاہم میانمار کی فوج نے راکھین میں مبینہ شدت پسندوں کے خلاف کی جانے والی فوجی کارروائی کے انچارج جنرل کا تبادلہ کردیا ہے جس کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔
میجر جنرل موانگ موانگ سو برمی فوج کے مغربی کمانڈ کے سربراہ تھے جو راکھین میں کی جانے والی کارروائیوں کی نگرانی کر رہے تھے۔
اگست کے اواخر میں شروع ہونے والی ان کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک چھ لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان راکھین سے ہجرت کرکے پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں پناہ لے چکے ہیں۔
میانمار کی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے نائب سربراہ میجر جنرل آئے لوئن نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ جنرل موانگ سو کے تبادلے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی اور انہیں تاحال کوئی اور عہدہ بھی نہیں دیا گیا ہے۔
جنرل موانگ سو کے تبادلے کا حکم جمعے کو جاری کیا گیا اور ان کی جگہ بریگیڈیئر جنرل سو ٹنٹ نائنگ کو مغربی کمانڈ کا نیا سربراہ مقرر کردیا گیا ہے۔
میانمار کی فوج نے پیر کو راکھین میں پیش آنے والے مبینہ مظالم سے متعلق محکمہ جاتی تحقیقات کی ایک رپورٹ بھی جاری کی ہے جس میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کسی بھی کارروائی سے بری الذمہ قرار دیا گیا ہے۔
برمی فوج کے سربراہ سینئر جنرل مِن انگ ہلینگ کے فیس بک بیج پر جاری کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحقیقات کے دوران برمی سکیورٹی فورسز کے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کسی کارروائی میں ملوث ہونے کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔
رپورٹ کے مطابق تحقیقات کے دوران روہنگیا مسلمانوں کے 54 دیہات کے 2817 رہائشیوں سے انٹرویوز کیے گئے جنہوں نے کہا کہ بری فوجیوں نے نہ تو "معصوم دیہاتیوں" پر کوئی فائرنگ کی اور نہ ہی وہ خواتین کے خلاف کسی قسم کے جنسی جرائم میں ملوث ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق تمام دیہاتیوں نے کسی قسم کی مار پیٹ، لوٹ مار اور مساجد اور گھروں کا آگ لگانے کی کارروائیوں کے الزامات کی بھی تردید کی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برمی فوج نے روہنگیا جنگجووں کے خلاف صرف چھوٹے ہتھیار استعمال کیے اور فوجیوں کی جانب سے "طاقت کے بے محابا استعمال" کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
برمی فوج نے یہ رپورٹ امریکی وزیرِ خارجہ ریکس ٹلرسن کے دورۂ میانمار سے دو روز قبل جاری کی ہے۔
سیکریٹری ٹلرسن بدھ کو میانمار پہنچ رہے ہیں جہاں توقع ہے کہ وہ برمی فوج کی راکھین میں کارروائیوں سے متعلق امریکہ کے سخت موقف کا اعادہ کریں گے۔
امریکی کانگریس کے کئی ارکان روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے ردِ عمل میں میانمار کے فوجی رہنماؤں پر سفری پابندیاں اور میانمار پر معاشی قدغنیں عائد کرنے کی حمایت کر رہے ہیں۔
میانمار کی حکومت اقوامِ متحدہ کی اس ٹیم کو بھی روہنگیا مسلمانوں کے علاقے کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دے رہی جسے اکتوبر 2016ء میں علاقے میں کی جانے والی فوجی کارروائی کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی تحقیقات کا ہدف دیا گیا ہے۔