رسائی کے لنکس

’ روہنگیا مسلمانوں تک امداد پہنچانے کی اجازت دی جائے‘


روہنگیا مسلمانوں کے ایک کیمپ کی خواتین اور اور بچے، (فائل فوٹو)
روہنگیا مسلمانوں کے ایک کیمپ کی خواتین اور اور بچے، (فائل فوٹو)

2012 میں تشدد کے آغاز سے اب تک ایک لاکھ 20 ہزار سے زیادہ روہنگیا مسلمانوں کو کیمپوں میں اپنی زندگی گذارنے رہے ہیں جہاں حالات ناگفتہ بہ ہیں اور نقل و حرکت پر کڑی پابندیاں عائد ہیں۔

امریکہ سمیت 14 سفارتی مشنز نے میانمر پر زور دیا ہے کہ وہ انسانی ہمدوردی کی امداد کو شورش زدہ صوبے راکین میں جانے کی اجازت دے جہاں پچھلے مہینے فوجی کارروائی شروع ہونے کے بعد سے ہزاروں لوگوں کو مدد کی ضرورت ہے اور وہ ادویات اور زندگی کی دیگر ضروريات تک رسائی حاصل نہیں کر پا رہے۔

جمعے کے روز جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں امداد تک بلا روک ٹوک اور مکمل رسائی دینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس علاقے میں انسانی ہمدوردی کی سنگین صورت حال کے پیش نظر مدد فراہم کرنے اور امن اور استحكام کے قیام کی خاطر، متاثرہ افراد کے اندر اعتماد بحال کرنے اور امید جگانے کی ضرورت ہے۔

تاہم میانمر کی حکومت متعدد موقعوں پر ان علاقوں میں امداد پہنچانے کی اجازت دینے کے لیے اپنی رضامندی ظاہر کر چکی ہے جہاں 80 سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں اور 20 ہزار سے زیادہ آبادی کو اپنے گھر بار چھوڑ کر بنگلہ دیش کی جانب فرار ہونا پڑا ہے۔

سن 2012 میں تشدد شروع ہونے کے بعد سے اب تک ایک لاکھ 20 ہزار سے زیادہ روہنگیا مسلمانوں کو کیمپوں میں اپنی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں، جہاں اطلاعات کے مطابق رہنے کی صورت حال نا گفتہ بہ ہے اور نقل و حرکت پر کڑی پابندیاں عائد ہیں۔

میانمر کی ریاستی کونسلر اور جمہوریت کی علامت آنگ ساں سوچی کو تشدد پر قابو پانے کے سلسلے میں ناکامی پر بڑھتی ہوئی نکتہ چینی کا سامنا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں یہ إلزام عائد کرتی ہیں کہ پکڑ دھکڑ کے دوران بڑے پیمانے پر زیادتیوں اور حکومتی فورسز کی جانب سے زبردستی جنسی حملوں، اور ہزاروں گھروں کو نذر آتش کرنے کے واقعات کا ارتکاب ہوتا رہا ہے۔

یہ مشترکہ بیان، آسٹریلیا، بیلجئم ، کینیڈا، ڈنمارک، فن لینڈ، فرانس، یونان، آئرلینڈ، نیدرلینڈز، پولینڈ، سپین، سویڈن، ترکی اور امریکہ کے نمائندوں کے دستخطوں سے جاری کیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG