کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے نافذ کردہ لاک ڈاؤن نے بھارتی معیشت پر بہت برا اثر ڈالا ہے۔ اقتصادی سرگرمیاں ٹھپ ہو گئی ہیں اور متعدد شعبے تباہی کے دہانے پر ہیں۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے معیشت میں بہتری کے لیے ایک بڑے اقتصادی پیکج کا اعلان کیا ہے۔
بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے معیشت کو سہارا دینے کے لیے 20 لاکھ کروڑ روپے (تقریباً 265 ارب ڈالر) کے اقتصادی پیکج کا اعلان کیا ہے۔ بھارتی حکومت عالمی وبا کی صورتِ حال میں معیشت سے متعلق جن پیکجز کا اعلان کر چکی ہے، وہ مجموعی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی کا تقریباً 10 فی صد بنتے ہیں۔
امریکہ اور جاپان بھی ایسے ہی بڑے اقتصادی پیکجز کا اعلان کر چکے ہیں۔ امریکہ کا پیکج مجموعی ملکی جی ڈی پی کا 13 فی صد اور جاپان کا 21 فی صد تھا۔
منگل کی شب وزیرِ اعظم مودی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اس پیکج کو 'سیلف ریلائنٹ انڈیا مشن' یعنی خود کفیل بھارت مشن کا نام دیا۔
انہوں نے کہا کہ اس سے قبل حکومت نے جو معاشی اعلانات کیے تھے، جو ریزرو بینک کے فیصلے تھے اور جس پیکج کا آج اعلان ہو رہا ہے، ان سب کو جوڑ دیں تو یہ جی ڈی پی کا تقریباً 10 فی صد بنتا ہے۔
وزیرِ اعظم مودی کا کہنا تھا کہ 20 لاکھ کروڑ روپے کا یہ پیکج 2020 میں ملکی ترقی کے سفر اور خود کفیل بھارت مہم کو ایک نئی رفتار دے گا۔ ان کے بقول اس پیکج سے تمام طبقات کو فائدہ ہو گا۔ غریبوں، مزدوروں اور خوانچہ فروشوں کو بھی فائدہ پہنچے گا اور صنعتوں کو ملازمت کے مواقع پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔
نریندر مودی نے کہا کہ یہ پیکج ہمارے ملک کے متوسط طبقے اور ٹیکس دہندگان کے لیے ہے۔ البتہ انہوں نے اس پیکج کی تفصیلات نہیں بتائیں۔ بھارتی وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ وزیرِ خزانہ نرملا سیتا رمن آئندہ چند دنوں میں اس کی تفصیلات پیش کریں گی۔
گزشتہ روز جب بھارتی وزیرِ اعظم کے قوم سے خطاب کرنے کا اعلان ہوا تو لوگوں کو ایسا لگا تھا کہ وہ لاک ڈاؤن 4.0 کا اعلان کریں گے۔ لیکن اس سلسلے میں انہوں نے صرف یہ کہا کہ لاک ڈاؤن 'فور پوائنٹ زیرو' نئے انداز اور نئے قواعد کے ساتھ ہو گا۔
بھارتی وزیرِ اعظم کے قوم سے خطاب اور معاشی پیکج کے اعلان پر حزب اختلاف کی جماعتیں اور رہنما تنقید کر رہے ہیں۔
اپوزیشن جماعت کانگریس پارٹی نے وزیر اعظم مودی کے خطاب پر فوری طور پر ردِ عمل دیتے ہوئے مایوسی کا اظہار کیا۔ کانگریس کے ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے ٹوئٹ میں کہا کہ مودی جی! آپ نے میڈیا کو خبر بنانے کی ہیڈ لائن تو دے دی، لیکن ملک کو مدد کی ہیلپ لائن کا انتظار ہے۔ لوگوں کو وعدوں سے حقیقت تک کا سفر مکمل ہونے کا انتظار رہے گا۔
انہوں نے نریندر مودی کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ وہ لاکھوں مزدور جو اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں، آپ نے ان کے لیے کوئی اعلان نہیں کیا۔ ان کو راحت پہنچانا، ان کے زخموں پر مرہم رکھنا اور بحفاظت گھر واپسی میں ان کی مدد کرنا اس وقت کی اوّلین ضرورت ہے۔
رندیپ سنگھ کے بقول "امید تھی کہ آپ اس بارے میں کچھ اعلان کریں گے، لیکن آپ کی بے حسی سے عوام مایوس ہو گئے ہیں۔"
بھارت کے سابق وزیرِ خزانہ اور سینئر کانگریس رہنما پی چدمبرم نے رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعظم مودی نے 'ہیڈلائن اور بلینک پیج' دیے ہیں۔ امید ہے کہ وزیرِ خزانہ نرملا سیتا رمن اس بلینک پیج کو پُر کریں گی۔
انہوں نے مزدوروں اور اپنے گھروں کو لوٹنے کے لیے پریشان افراد کے بارے میں کوئی اعلان نہ کرنے پر بھی نریندر مودی پر تنقید کی۔
کانگریس کے ایک اور سینئر رہنما جے رام رمیش نے نریندر مودی کے اعلان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پچھلی شب انہوں نے وہی کیا جو وہ اپنی دانست میں سب سے بہتر کر سکتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ پیکجنگ اور کم سے کم معنویت۔ ان کا اعلان ایکشن نہیں صرف پیغام تک محدود تھا۔
دوسری جانب اقتصادی ماہرین بھی بھارتی وزیرِ اعظم کے اعلان کردہ پیکج پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 20 لاکھ کروڑ روپے کہاں سے آئیں گے؟
سینئر تجزیہ کار گوردیپ سنگھ سپّل کہتے ہیں کہ "وزیر اعظم نے غریبوں کے لیے کچھ نہیں کیا، مہاجر مزدوروں کے لیے کچھ نہیں کیا۔ انہوں نے صرف لفاظی کی ہے اور غریبوں کو ایک خواب بیچنے کی کوشش کی ہے۔"
انہوں نے کہا کہ نریندر مودی نے جب پہلے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا تو کہا تھا کہ ہم 21 دنوں میں کرونا کو ہرائیں گے۔ لیکن اب وہ کہہ رہے ہیں کہ کرونا کے ساتھ ہی ہمیں جینا ہو گا۔ اسی لیے وہ کرونا کے اس بحران کو ایک موقع کے طور پر پیش کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور بھارت کو خود کفیل معیشت بنانا چاہیے۔
گوردیپ سنگ کے مطابق وزیرِ اعظم نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا کہ ہمیں بیرونی مصنوعات کے بجائے ملکی مصنوعات پر انحصار کرنا ہو گا۔ اس کے لیے انہوں نے "لوکل کے لیے ووکل بننا ہو گا"، کے الفاظ استعمال کیے۔
وزیرِ اعظم نے ڈیمانڈ بڑھانے کی بھی بات کی ہے۔ لیکن گوردیپ سنگھ کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے دو ماہ سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے وقت ٹھیر گیا ہے۔ لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہیں تو پھر ڈیمانڈ کہاں سے بڑھے گی۔
گوردیپ سنگھ کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم نے لاک ڈاؤن کا چوتھا مرحلہ 18 مئی سے شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ حالاں کہ اب تک لاک ڈاؤن کے تینوں مراحل ناکام ثابت ہوئے ہیں اور کرونا کے کیسز کم ہونے کے بجائے بڑھتے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب پہلے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تھا تو کرونا کے مثبت کیسز بہت کم تھے اور اس کا دائرہ بھی زیادہ وسیع نہیں تھا۔ مگر اب بھارت کے 550 اضلاع میں کرونا وائرس پھیل گیا ہے اور 70 ہزار سے زائد کیسز ریکارڈ ہو چکے ہیں۔
اقتصادی امور کے ماہر ابھیشیک کمار کے مطابق بھارت میں جاری لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہوٹل اور ریستورانوں کی صنعت کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں کاروبار میں 45 فی صد کمی ہوئی ہے جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ بہت سے ریستورانوں کو اپنا اسٹاف کم کرنا پڑ رہا ہے جس سے لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں۔
کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے یوں تو متعدد شعبے متاثر ہوئے ہیں لیکن سب سے زیادہ اثر ہوا بازی، سیاحت، ہوٹل، آٹو موبائل اور بجلی کے شعبوں پر پڑا ہے۔
لاک ڈاؤن سے آٹو موبائل سیکٹر بری طرح متاثر ہے۔ مارچ کے مہینے میں گاڑیوں اور پارٹس کی فروخت میں زبردست کمی دیکھی گئی ہے۔ ماروتی سوزوکی انڈیا کی سیل میں 47 فی صد اور ہونڈائی کی سیل میں 40 فی صد کمی ہوئی ہے۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے بے شمار فیکٹریاں بند ہیں اور سڑکوں پر گاڑیاں نہیں ہیں جس کی وجہ سے بجلی اور پیٹرول و ڈیزل کی کھپت میں بھی کمی آئی ہے۔ بجلی کی کھپت تقریباً 27 فی صد، پیٹرول 17 اور ڈیزل کی کھپت 24 فی صد کم ہو گئی ہے۔
اسٹاک مارکیٹ پر بھی لاک ڈاؤن کا برا اثر پڑا ہے۔ البتہ وزیرِ اعظم کے اقتصادی پیکج کے اعلان کے بعد بدھ کو بازار حصص میں تیزی دیکھی گئی ہے۔