کیا آپ نے کبھی کسی اڑن طشتری یا خلائی مخلوق کو دیکھا ہے ؟ اگر نہیں تو آپ نے اس بارے میں سنا ضرور ہو گا۔ایک عرصے سے دنیا کے مختلف حصوں میں لوگ آسمان پر اڑتی یا آسمان سے زمین پر اترتی ایسی عجیب و غریب مخلوق یا اشیا کو دیکھنے کی خبریں دے رہے ہیں جنہیں عام زبان میں اڑن طشتریاں ،خلائی مخلوق یا اجنبی جہاز کہا جاتا ہے جب کہ سائنسدان انہیں اڑتی ہوئی غیر شناخت شدہ اشیا یا، یو ایف او ز کہتےہیں۔
اڑن طشتریاں یا خلائی مخلوق کے طورپر معروف یہ یو ایف اوز کہاں سے آتے ہیں ؟ کیوں ہمارے آسمانوں پر دکھائی دیتے ہیں ؟ کیا وہ کسی دوسرے سیارے یا سیاروں کی مخلوق یا جہاز ہیں؟ اگر ایسا ہے تو زمین پر ان کے آنے کا مقصد کیا ہے؟ اور وہ پھر کیوں غائب ہو جاتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ غیر ملکی جاسوسی کے کسی مشن کا حصہ ہوں؟
یہ ہیں وہ سوالات جو ان خلائی مخلوقات یا یو ایف اوز کے بارے میں پیدا ہو کر مختلف قسم کی غلط فہمیوں کو ہوا دینے کا موجب بن رہے ہیں۔ لیکن ان میں سے دو سوال ناسا کے سائنس دانوں اور امریکی محکمہ دفاع کے لیے قابل توجہ تھے کہ کہیں ان اشیا کا تعلق کسی غیر ملکی جاسوسی مشن سے تو نہیں ؟ یا وہ کسی دوسرے سیارے یا سیاروں کی کسی مخلوق کے کسی مشن کا حصہ تو نہیں؟
غالباً انہی سوالوں کی بنیاد پر امریکی حکومت نے حالیہ برسوں میں ان اڑتی ہوئی غیر شناخت شدہ اشیا کے مسئلے کو سنجیدگی سے لینا شروع کیا ۔ امریکی خلائی ادارہ ناسا نے ایک سال تک ان یو ایف اوز یا اڑن طشتریوں کے بارے میں ریسرچ کی اورجمعرات کو اپنے نتائج جاری کیے ۔
اپنی 33 صفحاتی رپورٹ میں ناسا کی تشکیل کردہ ایک 16 رکنی ٹیم نے کہا کہ پینل کو ان یو ایف اوز کے بارے میں ایسے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں کہ ان کا تعلق کسی دوسرے سیارے سے ہے۔
لیکن پینل کے چئیرمین ڈیوڈ سپرگل نیلسن نے ایک نیوز کانفرنس میں تسلیم کیا کہ کیوں کہ کائنات میں اربوں اسٹارز اور کہکشائیں موجود ہیں ، ایک اور زمین بھی اپنا وجود رکھ سکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ریسرچرز کو اس ضمن میں جو شواہد ملے ہیں وہ اتنے ٹھوس نہیں ہیں کہ ان کی بنیاد پر کوئی سائنسی نتائج اخذ کیے جا سکیں ۔
پینل کے چئیر مین ڈیوڈ سپرگل نے کہا کہ بہت سے واقعات کو ہوائی جہازوں، ڈرونز، غباروں یا موسمی حالات سے منسوب کیا جاسکتا ہے ۔
ٹیم کی ایک رکن نادیہ ڈریک نے کہاکہ انہیں ایسی اشیا قرار دیا گیا ہے جنہیں کسی بھی سینسر یا مشین سے فوری طور پر سمجھا نہیں جا سکتا یا ایسی اشیا قرار نہیں دیا جاسکتا جو کوئی پریشان کن کام کر رہی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یو ایف اوز پر مزید ریسرچ کے لیے نئے سائنسی طریقے درکار ہوں گے جن میں ایڈوانسڈ سیٹلائٹس کے ساتھ ساتھ ان اشیا کوسمجھنے کے طریقوں میں تبدیلی شامل ہو گی ۔
اپنی رپورٹ میں ناسا کی تشکیل کردہ ٹیم نے انتباہ کیا کہ یو ایف او کے متعلق پھیلی ہوئی غلط فہمیوں کے باعث ڈیٹا کو اکٹھا کرنے میں رکاوٹیں در پیش ہیں ۔ لیکن عہدے داروں نے کہا ہے کہ ناسا کی شمولیت سے ان اشیا کے بارے میں پھیلی غلط فہمیاں دور ہونے میں مدد ملے گی۔
ناسا کے ایڈمنسٹریٹر بل نیلسن نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ان اشیا کے بارے میں گفتگو مبالغہ آرائی کی بجائے سائنسی رنگ اختیار کر لے۔
رپورٹرز کے اس سوال کے جواب میں کہ آیا امریکی حکومت یا دوسری حکومتیں خلائی مخلوق یا دوسرے زمینی خلائی جہازو ں کو چھپا رہی ہیں ۔تو نیلسن نے کہا کہ مجھے اس بارے میں شواہد دکھائیں۔
ناسا نے کہا تھا کہ وہ ان یو ایف اوز پر براہ راست ریسرچ نہیں کرتا ۔ لیکن وہ زمین کے گرد گھومنے والے ایسے خلائی جہازوں کا ایک فلیٹ ضرور چلاتا ہے جو مثال کے طور پر یہ تعین کرنے میں مدد کر سکے کہ آیا ان عجیب واقعات کے پس پشت موسم کا تو کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
16 رکنی ٹیم نے کہا کہ یو ایف اوز سمیت ، ایسے شاز ونادر واقعات کی نشاندہی کے لیے آرٹی فیشل انٹیلی جینس اور مشین لرننگ کا استعمال اہمیت رکھتا ہے۔
اس ریسرچ پر تقریباً ایک لاکھ ڈالر خرچ ہوئے ہیں۔
( اس رپورٹ کا مواد اے پی اور اے ایف پی سے لیا گیاہے۔)
فورم