کراچی میں منگل سے 'ناپا انٹرنیشنل تھیٹر فیسٹیول 2014' شروع ہونے والا ہے۔ بھارت کی 'آرٹ فلموں کے دلیپ کمار' کہلائے جانے والے اداکار، نصیر الدین شاہ فیسٹیول میں شرکت کی غرض سے کراچی میں موجود ہیں اور ان کا ایک اسٹیج پلے 'عصمت آپا کے نام' فیسٹیول کی زینت ہے۔
نصیر الدین شاہ بنیادی طور پر تھیٹر آرٹسٹ ہیں۔ انہوں نے تھیٹر کی باقاعدہ تربیت دہلی کے شہرہ آفاق 'نیشنل اسکول آف ڈرامہ (این ایس ڈی)' سے حاصل کی۔ ان کا فنی کیرئیر 40سال پر محیط ہے۔ اتنے طویل کیرئیر میں انہوں نے تھیٹر، ٹی وی اور فلم تینوں شعبوں میں اپنے فن کی بدولت کمال حاصل کیا۔
’ناپا ‘نے نصیر الدین شاہ کے اس وسیع تجربے سے اپنے طالب علموں کو روشناس کرانے اور ان کی فنی زندگی میں آنے والے ایشوز سے آگاہی کے لئے اس ویک اینڈ پر ایک ورکشاپ منعقد کی۔
ہفتے کی شام ’ناپا‘ کا آڈیٹوریم کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ میڈیا کو بھی اس ورکشاپ میں شرکت کا موقع فراہم کیا گیا تھا۔
نصیرالدین شاہ کا نام فلم اور تھیڑز آڈینز کے لئے کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کے فلمی کیرئیر میں بہت سے ایسے رول ہیں جو ان کی حقیقت سے قریب ترین اداکاری کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے امرہوگئے۔
جدوجہد کے کڑے دن ۔۔
ورکشاپ کے دوران تھیٹر کی تربیت سے جڑے اپنی زندگی کے واقعات سناتے ہوئے، نصیر الدین شال نے کہا 'میں نے پڑھائی میں کبھی دلچسپی نہیں لی، نہ اسپورٹس میں کبھی آگے آیا۔ لیکن، مجھے اتنا یقین تھا کہ اداکاری کی فیلڈ صرف میرے لیے بنی ہے'۔
اُنھوں نے کہا کہ 'وہ دور تھیٹر کے حوالے سے بہت اچھا تھا۔ اور میں تھیٹر کو دل سے پسند کرتا تھا۔ لیکن، مسئلہ یہ تھا کہ اپنے سے پہلے تھیٹر میں موجود لڑکوں کو دیکھ کر میرے اندر آگ لگ جاتی تھی۔۔۔لوگ ان کی تعریف کرتے تھے تو مجھے حسد محسوس ہوتی تھی کہ میں کیوں ایسا نہیں کرسکتا۔ مجھے لوگ تھیٹر پلے کے لئے بھی نہیں لیتے تھے۔ لیکن، انہی دنوں میرے ایک ٹیچر ابراہیم قاضی، جو خود بھی تھیٹر کرتے تھے اور خاصا شہرہ رکھتے تھے، انہوں نے مجھے تھیٹر میں پہلی مرتبہ کام دیا۔ میں نے دن رات ایک کردیئے اور محنت کرتے کرتے آج یہاں ۔۔۔آپ کے سامنے موجود ہوں۔'
اداکار کورا کاغذ ہوتا ہے۔۔۔
سیکڑوں فلموں اور ڈراموں میں ڈھیروں کردار یکساں مہارت سے ادا کرنے والے نصیرالدین شاہ لفظ ’ورسٹلیٹی پر یقین نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا ہے 'میں ’ورسٹائل اداکار ’کے بجائے خود کو صرف اداکار مانتا ہوں۔ بہت سے لوگ اداکاروں کو 'تھیٹرز' اور ’فلم‘ ۔۔دو الگ الگ شعبوں میں تقسیم کرتے ہیں۔لیکن، میں اس سے متفق نہیں۔ میرے نزدیک اداکار ایسا کورا کاغذ ہے جس پر جو تحریر بھی لکھی جائے اس کا ہر رنگ اور انگ نمایاں نظر آتا ہے۔'
اپنی صرف 5 یا6 فلموں کو یادگار کہہ سکتا ہوں۔۔
نصیر اپنے فلمی کیرئیر میں کی گئی ہر فلم سے بھی مطمئن نہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ 250فلموں میں کام کرچکے ہیں، جن میں سے 150'بدترین' تھیں، 75'ایوریج' اور باقی ایسی تھیں جن کو ’اچھا‘ کہا جا سکتا ہے۔ ان فلموں میں سے بھی صرف پانچ یا چھ فلمیں ایسی ہیں جنہیں میں اپنی یادگار فلمیں کہہ سکتا ہوں۔'
کچھ برے ڈائریکٹرز کے ساتھ کام کرکے افسوس ہوا۔۔
اس سوال پر کہ کیا انہیں نئے فلم میکرز اور ڈائریکٹرز کے ساتھ کام کرنے پر پچھتاوا تو نہیں ہوتا؟ نصیرالدین شاہ نے جواب دیا 'میری صورتحال اس کے برعکس ہے۔ بہت سے نامی گرامی ڈائریکٹرز ایسے ہیں جن کے ساتھ کام تو کیا لیکن بعد میں افسوس ہو ا کہ کیوں کیا۔ میری بہت سی اچھی فلموں کو نوجوان فلم میکرز نے بنایا۔ نوجوان فلم میکرز کی آنکھوں کی چمک اور کچھ کردکھانے کا جنون اور آگ یہ وہ چیزیں ہیں جو مجھے بہت بھاتی ہیں۔'
ممبئی میں اچھی فلم بنانا آخری ترجیح ہوتا ہے
نصیر بالی وڈ میں بننے والی فلموں کے معیار سے نالاں نظرآئے۔ انہوں نے کہا کہ آج کل کسی سے 12قسطوں کی سیریل پر بات کرو تو وہ مذاق اڑاتا ہے اور کہتا ہے کہ 120 ایپی سوڈ کی بات کرو۔ ایک اچھا معیاری سیریل بنانے کے لئے کوئی ایک کروڑ دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ لیکن بلاک بسٹر فلم کے لئے 100کروڑ دینے کے لئے بھی خوشی خوشی تیارہوجاتے ہیں۔'
نصیر الدین شاہ کے بقول، 'ممبئی میں فلم بنانے والوں کے لئے اچھی فلم بنانا ترجیحات میں سب سے آخری نمبر پر ہوتا ہے۔ ان کا پہلا مقصد پیسہ کمانا اور دوسرا آڈینس کو بیوقوف بنانا ہوتا ہے۔'
۔۔۔فلمیں زہر ہیں اور لوگ اس زہر کے عادی ہیں
نصیر الدین شاہ خود ہی اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں، 'اس میں قصور فلمی شائقین کا بھی ہے۔ جس فلم کو برا کہتے ہیں اسے بھی تین تین بار دیکھنے جاتے ہیں۔ یہ ایک طرح کا نشہ نہیں تو اور کیا ہے؟ ایسی فلمیں زہر ہیں اور لوگ اس زہر کے عادی ہوگئے ہیں۔'
'تھیٹر پیسہ کمانے کے لئے صحیح جگہ نہیں'
تھیڑ کے منجھے ہوئے آرٹسٹ کی حیثیت سے نصیرالدین شاہ نے تھیڑ کرنے والے نوجوان آرٹسٹس کو کچھ مشورے بھی دئیے۔ اُن کا کہنا تھا، 'تھیٹر پیسہ کمانے کے لئے صحیح جگہ نہیں۔ یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ تھیڑ کرنے کے لئے سب سہولتیں ملیں۔ بس میں، ٹرین میں چلتے پھرتے، مجھے جہاں جگہ ملتی تھی اسکرپٹ پڑھتا اور ریہرسل کرتا جاتاتھا۔ بہت سے نئے نئے تھیٹرز بن بھی جائیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بہت سے اچھے ڈرامے بھی اسٹیج ہوں گے۔ تھیٹر ایسا میڈیم ہے جس میں ناظرین سے براہ راست رابطہ ہوتا ہے۔ تھیڑ کے حوالے سے سب سے مشکل کام کسی بھی ایک کردار کا مسلسل آدھے یا ایک گھنٹے تک سامنے بیٹھے آڈینس کے لیے پرفارم کرنا ہوتا ہے۔'
اچھا فنکار، اچھے اسکرپٹ کا محتاج
نصیرالدین شاہ نے اپنی گفتگو میں اسکرپٹ کی اہمیت بھی اجاگر کی۔ ان کا کہنا تھا ایکٹر چاہے کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، اگر اسکرپٹ اچھا نہیں، تو وہ کچھ نہیں کرسکتا۔ انہوں نے اپنی کامیابی کا سارا سہرا اپنی ماں اور اس کے بعد کہانی نگاروں کو دیا۔ ان کا کہنا تھا 'میں نے جو بھی کردار کئے وہ رائٹر کے مرہون منت تھے۔۔اور یہ موڈسٹی نہیں، حقیقت ہے۔'
نصیر الدین شاہ بنیادی طور پر تھیٹر آرٹسٹ ہیں۔ انہوں نے تھیٹر کی باقاعدہ تربیت دہلی کے شہرہ آفاق 'نیشنل اسکول آف ڈرامہ (این ایس ڈی)' سے حاصل کی۔ ان کا فنی کیرئیر 40سال پر محیط ہے۔ اتنے طویل کیرئیر میں انہوں نے تھیٹر، ٹی وی اور فلم تینوں شعبوں میں اپنے فن کی بدولت کمال حاصل کیا۔
’ناپا ‘نے نصیر الدین شاہ کے اس وسیع تجربے سے اپنے طالب علموں کو روشناس کرانے اور ان کی فنی زندگی میں آنے والے ایشوز سے آگاہی کے لئے اس ویک اینڈ پر ایک ورکشاپ منعقد کی۔
ہفتے کی شام ’ناپا‘ کا آڈیٹوریم کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ میڈیا کو بھی اس ورکشاپ میں شرکت کا موقع فراہم کیا گیا تھا۔
نصیرالدین شاہ کا نام فلم اور تھیڑز آڈینز کے لئے کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کے فلمی کیرئیر میں بہت سے ایسے رول ہیں جو ان کی حقیقت سے قریب ترین اداکاری کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے امرہوگئے۔
جدوجہد کے کڑے دن ۔۔
ورکشاپ کے دوران تھیٹر کی تربیت سے جڑے اپنی زندگی کے واقعات سناتے ہوئے، نصیر الدین شال نے کہا 'میں نے پڑھائی میں کبھی دلچسپی نہیں لی، نہ اسپورٹس میں کبھی آگے آیا۔ لیکن، مجھے اتنا یقین تھا کہ اداکاری کی فیلڈ صرف میرے لیے بنی ہے'۔
اُنھوں نے کہا کہ 'وہ دور تھیٹر کے حوالے سے بہت اچھا تھا۔ اور میں تھیٹر کو دل سے پسند کرتا تھا۔ لیکن، مسئلہ یہ تھا کہ اپنے سے پہلے تھیٹر میں موجود لڑکوں کو دیکھ کر میرے اندر آگ لگ جاتی تھی۔۔۔لوگ ان کی تعریف کرتے تھے تو مجھے حسد محسوس ہوتی تھی کہ میں کیوں ایسا نہیں کرسکتا۔ مجھے لوگ تھیٹر پلے کے لئے بھی نہیں لیتے تھے۔ لیکن، انہی دنوں میرے ایک ٹیچر ابراہیم قاضی، جو خود بھی تھیٹر کرتے تھے اور خاصا شہرہ رکھتے تھے، انہوں نے مجھے تھیٹر میں پہلی مرتبہ کام دیا۔ میں نے دن رات ایک کردیئے اور محنت کرتے کرتے آج یہاں ۔۔۔آپ کے سامنے موجود ہوں۔'
اداکار کورا کاغذ ہوتا ہے۔۔۔
سیکڑوں فلموں اور ڈراموں میں ڈھیروں کردار یکساں مہارت سے ادا کرنے والے نصیرالدین شاہ لفظ ’ورسٹلیٹی پر یقین نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا ہے 'میں ’ورسٹائل اداکار ’کے بجائے خود کو صرف اداکار مانتا ہوں۔ بہت سے لوگ اداکاروں کو 'تھیٹرز' اور ’فلم‘ ۔۔دو الگ الگ شعبوں میں تقسیم کرتے ہیں۔لیکن، میں اس سے متفق نہیں۔ میرے نزدیک اداکار ایسا کورا کاغذ ہے جس پر جو تحریر بھی لکھی جائے اس کا ہر رنگ اور انگ نمایاں نظر آتا ہے۔'
اپنی صرف 5 یا6 فلموں کو یادگار کہہ سکتا ہوں۔۔
نصیر اپنے فلمی کیرئیر میں کی گئی ہر فلم سے بھی مطمئن نہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ 250فلموں میں کام کرچکے ہیں، جن میں سے 150'بدترین' تھیں، 75'ایوریج' اور باقی ایسی تھیں جن کو ’اچھا‘ کہا جا سکتا ہے۔ ان فلموں میں سے بھی صرف پانچ یا چھ فلمیں ایسی ہیں جنہیں میں اپنی یادگار فلمیں کہہ سکتا ہوں۔'
کچھ برے ڈائریکٹرز کے ساتھ کام کرکے افسوس ہوا۔۔
اس سوال پر کہ کیا انہیں نئے فلم میکرز اور ڈائریکٹرز کے ساتھ کام کرنے پر پچھتاوا تو نہیں ہوتا؟ نصیرالدین شاہ نے جواب دیا 'میری صورتحال اس کے برعکس ہے۔ بہت سے نامی گرامی ڈائریکٹرز ایسے ہیں جن کے ساتھ کام تو کیا لیکن بعد میں افسوس ہو ا کہ کیوں کیا۔ میری بہت سی اچھی فلموں کو نوجوان فلم میکرز نے بنایا۔ نوجوان فلم میکرز کی آنکھوں کی چمک اور کچھ کردکھانے کا جنون اور آگ یہ وہ چیزیں ہیں جو مجھے بہت بھاتی ہیں۔'
ممبئی میں اچھی فلم بنانا آخری ترجیح ہوتا ہے
نصیر بالی وڈ میں بننے والی فلموں کے معیار سے نالاں نظرآئے۔ انہوں نے کہا کہ آج کل کسی سے 12قسطوں کی سیریل پر بات کرو تو وہ مذاق اڑاتا ہے اور کہتا ہے کہ 120 ایپی سوڈ کی بات کرو۔ ایک اچھا معیاری سیریل بنانے کے لئے کوئی ایک کروڑ دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ لیکن بلاک بسٹر فلم کے لئے 100کروڑ دینے کے لئے بھی خوشی خوشی تیارہوجاتے ہیں۔'
نصیر الدین شاہ کے بقول، 'ممبئی میں فلم بنانے والوں کے لئے اچھی فلم بنانا ترجیحات میں سب سے آخری نمبر پر ہوتا ہے۔ ان کا پہلا مقصد پیسہ کمانا اور دوسرا آڈینس کو بیوقوف بنانا ہوتا ہے۔'
۔۔۔فلمیں زہر ہیں اور لوگ اس زہر کے عادی ہیں
نصیر الدین شاہ خود ہی اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں، 'اس میں قصور فلمی شائقین کا بھی ہے۔ جس فلم کو برا کہتے ہیں اسے بھی تین تین بار دیکھنے جاتے ہیں۔ یہ ایک طرح کا نشہ نہیں تو اور کیا ہے؟ ایسی فلمیں زہر ہیں اور لوگ اس زہر کے عادی ہوگئے ہیں۔'
'تھیٹر پیسہ کمانے کے لئے صحیح جگہ نہیں'
تھیڑ کے منجھے ہوئے آرٹسٹ کی حیثیت سے نصیرالدین شاہ نے تھیڑ کرنے والے نوجوان آرٹسٹس کو کچھ مشورے بھی دئیے۔ اُن کا کہنا تھا، 'تھیٹر پیسہ کمانے کے لئے صحیح جگہ نہیں۔ یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ تھیڑ کرنے کے لئے سب سہولتیں ملیں۔ بس میں، ٹرین میں چلتے پھرتے، مجھے جہاں جگہ ملتی تھی اسکرپٹ پڑھتا اور ریہرسل کرتا جاتاتھا۔ بہت سے نئے نئے تھیٹرز بن بھی جائیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بہت سے اچھے ڈرامے بھی اسٹیج ہوں گے۔ تھیٹر ایسا میڈیم ہے جس میں ناظرین سے براہ راست رابطہ ہوتا ہے۔ تھیڑ کے حوالے سے سب سے مشکل کام کسی بھی ایک کردار کا مسلسل آدھے یا ایک گھنٹے تک سامنے بیٹھے آڈینس کے لیے پرفارم کرنا ہوتا ہے۔'
اچھا فنکار، اچھے اسکرپٹ کا محتاج
نصیرالدین شاہ نے اپنی گفتگو میں اسکرپٹ کی اہمیت بھی اجاگر کی۔ ان کا کہنا تھا ایکٹر چاہے کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، اگر اسکرپٹ اچھا نہیں، تو وہ کچھ نہیں کرسکتا۔ انہوں نے اپنی کامیابی کا سارا سہرا اپنی ماں اور اس کے بعد کہانی نگاروں کو دیا۔ ان کا کہنا تھا 'میں نے جو بھی کردار کئے وہ رائٹر کے مرہون منت تھے۔۔اور یہ موڈسٹی نہیں، حقیقت ہے۔'