حزب اللہ کے راہنما سید حسن نصراللہ نے جمعے کے روز کہا کہ مستقبل میں شام یا لبنان کے خلاف اسرائیل کی جنگ، ایران اور عراق سمیت کئی ملکوں کے ہزاروں جنگجوؤں کو اپنی جانب کھینچ سکتی ہے۔
ان کا بیان یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس وقت کی صف بندی میں ایران کے حمایت یافتہ شیعہ جنگجو ، شام میں صدر بشار الاسد کی مدد کررہے ہیں اور مستقبل میں اسرائیل کے ساتھ ان کے کسی تنازع میں صدر اسد شامل ہو سکتے ہی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد سے حالیہ چند مہینوں میں حزب اللہ اور اس کے درینہ دشمن اسرائیل کے درمیان کشیدگیوں میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ ایران کے خلاف صدر ٹرمپ کا سخت لب و لہجہ ہے۔
اسرائیل کی فضائیہ کے سربراہ نے کہا ہے ان کا ملک حزب اللہ کے خلاف جنگ میں شروع دن سے ہی اپنی پوری قوت استعمال کرے گا۔
حزب اللہ کے لیڈر نصراللہ نے ٹیلی ویژن پر اپنی تقریر میں کہا ہے کہ ہمارے دشمن اسرائیل کو معلوم ہونا چاہئے کہ اگر اسرائیل نے شام یا لبنان کے خلاف جنگ چھیڑی تو یہ جنگ صرف لبنانی اسرائیلی یا شام اسرائیل کی جنگ تک ہی محدود نہیں رہے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ریاستیں براہ راست جنگ میں شامل ہوجائیں گی بلکہ عرب اور اسلامی دنیا سے، عراق، یمن ، ایران ، افغانستان اور پاکستان سے ہزاروں بلکہ لاکھوں جنگجوؤں کے لیے راستہ کھل سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کی جانب سے دھمکیاں اس کی دفاعی پالیسی کا حصہ ہیں جن میں اپنی کچھ فوجی صلاحیتوں کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔
نصراللہ نے حالیہ مہینوں میں کہا تھا کہ حزب اللہ کے تیار کردہ راکٹ اسرائیل کے اندر اپنے کسی بھی فوجی ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ لبنان یا غزہ کی پٹی میں اسرائیلی جنگ کی سے بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی اور اسرائیل یہ جنگ جیت نہیں پائے گا۔