نیٹو کے اعلیٰ حکام اور بات چیت میں شامل اعلیٰ امریکی حکام کے مطابق، توقع کا اظہار کیا ہے کہ وارسا میں نیٹو سربراہ اجلاس کے دوران داعش کے انسداد کے معاملے پر اتحاد عراق کے اندر تربیت کی فراہمی کے کام کے آغاز کا فیصلہ کرے گا۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیٹو کے اہل کار نے بتایا کہ ’’یہ فیصلہ کل کیے جانے کا امکان ہے۔۔۔ اور میرے خیال میں، اس پر اتفاق ہوگا‘‘۔
اہل کار نے کہا کہ عراق کے اندر کیے جانے والے اس مجوزہ اقدام سے نیٹو کو یہ سہولت ہوگی کہ تربیت کے کام کا درجہ بڑھا دے، جس میں عراقیوں کو دیا جانے والا مشن عددی لحاظ سے اور عراقیوں کی تربیت کا معاملہ شامل ہیں۔
اعلیٰ دفاعی حکام کے مطابق، اگر ہفتے کو سربراہان اس تجویز کی منظوری دیتے ہیں تو عراق اور شام میں داعش کے خلاف لڑائی میں نیٹو اتحاد کا ایک اتحادی رُکن بن جائے گا۔
اجلاس سے قبل نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے، ایک اعلیٰ امریکی دفاعی اہل کار نے بتایا کہ سربراہ اجلاس میں شریک امریکی اس بات کے خواہاں ہیں کہ اس مہم میں نیٹو ایک فوجی کارروائی میں شراکت دار بن جائے۔
ایک بلاک کی حیثیت میں نیٹو داعش کے خلاف لڑائی نہیں لڑ رہا؛ اس کے برعکس، اس کےارکان نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ وہ خطے میں امریکی قیادت والے اتحاد کے لیے اپنی مرضی سے فوجیں فراہم کرسکتے ہیں۔
دفاعی اہل کار نے بتایا کہ ’’متعدد دھمکیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اور مسقبل کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے، میرے خیال میں، اتحاد کا رکن بننا ایسا معاملہ ہے جسے ہم امریکی انتہائی اہم سمجھتے ہیں۔‘‘
اہل کار نے مزید کہا کہ شراکت دار کے طور پر نیٹو کے لیے فوجی مشن کی ’’قیادت کرنا ضروری نہیں‘‘۔
تاہم، اتحاد کا رُکن بننا، اتحاد کے لیے اتنا اہم معاملہ نہیں۔
نیٹو کے اہل کار نے کہا کہ ’’کھلے الفاظ میں، یوں کہیئے کہ ہمیں صرف نام گنوانے سے غرض نہیں۔ ہمیں اس سے کہیں زیادہ دلچسپی اس بات سے ہے کہ ہم بامعنی لحاظ سے شراکت دار بنیں‘‘۔
روس کی پریشانی
ناقدین نے خبردار کیا ہے کہ کارروائی میں نیٹو کے مزید ملوث ہونے پر روس کو پریشانی لاحق ہوگی، جو شام میں داعش کے دھڑوں کو ہدف بنا رہا ہے۔
بلقان کے ملکوں اور پولینڈ میں اتحاد کی تعیناتی کے معاملے پر نیٹو اور روس کے درمیان تناؤ بڑھا ہے۔ نیٹو نے اِسے ’’یقین دہانی کا اقدام‘‘ قرار دیا ہے، جب کہ روس کا کہنا ہے کہ نیٹو جارح کا کردار ادا کر رہا ہے، جس نے سابق سویت علاقے کے قریب سرحد پر قدم رکھا ہے۔
شام اور عراق میں نیٹو کی بڑی تعداد میں موجودگی سے تناؤ بڑھ سکتا ہے، جس سے روس کے اس دعوے کو تقویت مل سکتی ہے کہ نیٹو جارحانہ حرکات پر اتر آیا ہے۔