رسائی کے لنکس

نیٹو اجلاس: داعش، روسی جارحیت، افغان لڑائی زیرِ غور


افغانوں کو لاحق مسائل کے حل کے لیے نیٹو کو حکمتِ عملی بنانی ہوگی۔ اجلاس میں معیشت کے فروغ کی سخت تگ و دو، طالبان کے ساتھ امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے میں ناکامی اور گھمسان کی لڑائی کے نتیجے میں افغان ہلاکتوں میں اضافے کے معاملات شامل ہوں گے: تجزیہ کار

ایسے میں جب امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں 8400 امریکی فوج تعینات رہے گی، وارسا میں نیٹو کے رہنما جمعے اور ہفتے کو اجلاس میں شرکت کریں گے جس میں سکیورٹی کے تین کیلدی موضوع زیر بحث آئیں گے: افغان افواج کی اعانت جاری رکھنا، نیٹو کے جنوبی خطے میں داعش کے شدت پسندوں کو شکست دینا اور اتحاد کے مشرقی اطراف میں روسی جارحیت کا مقابلہ کرنا۔

اینتھونی کورڈسمن ’سینٹر فور اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز‘ سے وابستہ ہیں۔ سربراہ اجلاس سے قبل، اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’ہمیں صاف گوئی سے کام لینا ہوگا: اتحادکے پاس اور کوئی چارہ نہیں۔ اُنھیں چہل قدمی کرنی ہوگی اور گم چبانا ہوگا۔ آپ اہم خدشات کو اولیت نہیں دے سکتے؛ آپ کو اِن میں سے ہر ایک مسئلے سے نبردآزما ہونا پڑے گا‘‘۔

افغانستان

ایسے میں جب امریکی فوجیوں کی تعداد واضح نہیں، تجزیہ کار کہتے ہیں کہ افغانوں کے کئی ایک مسائل کے حل کے لیے، نیٹو رہنماؤں کو ایک حکمتِ عملی بنانی ہوگی، جس میں معیشت کے فروغ کی سخت تگ و دو، طالبان کے ساتھ امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے میں ناکامی اور گھمسان کی لڑائی کے نتیجے میں افغان ہلاکتوں میں اضافے کے معاملات شامل ہیں۔

کورڈسمن نے کہا کہ افغان لڑائی ایسی چیز ہے جس میں افغان سکیورٹی فورسز اور اُن کے نیٹو اتحادی ’’واضح طور پر ابھی فتح یاب نہیں ہو رہے‘‘، حالانکہ دو دہائیوں سے زیادہ مدت سے ملک میں وسائل کی بھرمار ہے جب کہ ہزاروں جانیں دی جا چکی ہیں۔

افغانستان میں اتحاد کی بَری کارروائی کو برقرار رکھنے کے علاوہ، امریکی سفیر برائے نیٹو ، ڈَگ لوتے نے کہا ہے کہ نیٹو رہنما جو ’’دوسری چیز‘‘ افغانستان کو فراہم کریں گے وہ اس بات کا اعادہ ہوگا کہ 2020ء تک افغان حکومت کی فوج اور پولیس کو مالی اعانت فراہم کی جاتی رہے گی۔

بدھ کے روز اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے، لوتے نے کہا کہ نیٹو کی کوشش ہے کہ افغان سرکاری رہنماؤں کی اعتماد سازی کی جائے اور اب تک ہونے والی پیش رفت کو جاری رکھا جائے۔

روسی جارحیت

روس کی جانب سے یوکرین کے جزیرہٴ کرائیمیا کے ساتھ ساتھ یوکرین کے مشرق میں علیحدگی پسندوں کی حمایت جاری رکھنے کے معاملات نیٹو کے لیے لازم کر دیا ہے کہ وہ اپنے مشرقی اتحادیوں کو یقین دہانی کرائے اور روس کی مزید جارحیت کو ختم کرنے کے لیے بھی اقدامات کرے۔

جنرل فلپ بریڈلو، یورپ کے لیے نیٹو کے سابق سپریم الائیڈ کمانڈر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میرے خیال میں، دفاع کا سب سے بڑا طریقہٴ کار یہ ہوگا کہ دفاعی استعداد مضبوط تر کی جائے اور اتحاد کی جانب سے دباؤ بڑھایا جائے؛ جس کا طریقہ یہ ہوگا کہ ہمارا سارا اتحاد، ٹھوس ڈھانچہ جو ہمارے اتحاد کی صورت میں موجود ہے، وہ مزید تیار رہے اور ضرورت پڑنے پر چابک دستی سے کام لے‘‘۔

اُنھوں نے یہ بات گذشتہ ہفتے واشنگٹن میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی جس کا انعقاد ’سینٹر فور اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز‘ نے کیا تھا۔

دفاعی صلاحیت بڑھانے میں مدد دینے کی غرض سے، امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور کینیڈا اتحاد کے مشرقی رقبے میں تواتر سے نیٹو کی بٹالین کی قیادت کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

ایسے میں جب امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں 8400 امریکی فوج تعینات رہے گی، وارسا میں نیٹو کے رہنما جمعے اور ہفتے کو اجلاس میں شرکت کریں گے جس میں سکیورٹی کے تین کیلدی موضوع زیر بحث آئیں گے: افغان افواج کی اعانت جاری رکھنا، نیٹو کے جنوبی خطے میں داعش کے شدت پسندوں کو شکست دینا اور اتحاد کے مشرقی اطراف میں روسی جارحیت کا مقابلہ کرنا۔

اینتھونی کورڈسمن ’سینٹر فور اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز‘ سے وابستہ ہیں۔ سربراہ اجلاس سے قبل، اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’ہمیں صاف گوئی سے کام لینا ہوگا: اتحادکے پاس اور کوئی چارہ نہیں۔ اُنھیں چہل قدمی کرنی ہوگی اور گم چبانا ہوگا۔ آپ اہم خدشات کو اولیت نہیں دے سکتے؛ آپ کو اِن میں سے ہر ایک مسئلے سے نبردآزما ہونا پڑے گا‘‘۔

داعش
جنوبی خطے میں امریکی قیادت والا اتحاد عراق میں داعش کے دہشت گردوں کو شکست دینے کے لیے عراقی سلامتی کی افواج اور کُرد پیش مرگہ کے لڑاکوں کی اعانت کر رہا ہے، جب کہ شام میں داعش سے نمٹنے کے لیے معتدل باغیوں کی حمایت کی جا رہی ہے۔
نیٹو کسی بلاک کی صورت میں داعش کی فوجوں سے نبردآزما نہیں؛ برعکس اِس کے ارکان اپنی مرضی سے امریکی قیادت والے اتحاد کے لیے فوجی فراہم کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG