سابق وزیراعظم نواز شریف نے خود کو نا اہل قرار دیے جانے کے عدالتی فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی کی درخواستیں عدالت عظمیٰ میں جمع کرا دی ہیں جن میں قانونی سقم کا حوالہ دیتے ہوئے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد معطل کرنے کی بھی استدعا کی گئی ہے۔
منگل کو نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت عظمیٰ میں سابق وزیراعظم کے خلاف عمران خان، سراج الحق اور شیخ رشید کی درخواستوں کے جواب میں تین الگ الگ درخواستیں جمع کرائیں۔
عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ نے 28 جولائی کو پاناما دستاویزات کے معاملے پر دائر درخواستوں کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو عوامی عہدہ رکھنے کے لیے نااہل قرار دیا تھا اور ان کے بچوں اور دیگر افراد کے خلاف احتساب بیورو کو ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔
فیصلے کے بعد نواز شریف وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے سکبدوش ہو گئے تھے اور الیکشن کمیشن نے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ نواز شریف کی جگہ کسی اور کو اپنی جماعت کا سربراہ منتخب کریں کیونکہ عدالتی فیصلے کے بعد اب وہ سیاسی جماعت کے سربراہ بھی نہیں رہ سکتے۔
حکمران جماعت اور نواز شریف یہ کہتے رہے ہیں کہ انھوں نے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد قانون کی بالادستی کے پیش نظر کیا لیکن اس پر ان کے شدید تحفظات ہیں۔
گزشتہ ہفتے اسلام آباد سے براستہ جی ٹی روڈ اپنے آبائی شہر لاہور کے چار روزہ سفر کے دوران بھی جگہ جگہ اپنے حامیوں سے خطاب میں سابق وزیراعظم نے عدالتی فیصلے پر کھل کر تنقید کی۔
نظرِ ثانی کے لیے دائر کی گئی درخواستوں میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پانچ رکنی بینچ نے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے فیصلہ سنایا جب کہ احتساب بیورو کو تفتیش کا حکم دینے کے علاوہ اس معاملے کی نگرانی کے لیے سپریم کورٹ کا ایک جج بھی مقرر کر دیا جو کہ درخواست گزار کو حاصل مقدمے کی شفاف کارروائی کے حق کے منافی ہے۔
درخواستوں میں استدعا کی گئی ہے کہ جب تک ان درخواستوں پر فیصلہ نہیں ہو جاتا 28 جولائی کے پانچ رکنی بینچ کے فیصلے پر عمل درآمد کو معطل کیا جائے۔
قانونی ماہرین شروع ہی سے یہ کہتے آ رہے ہیں کہ نواز شریف اگر نظرِ ثانی کے لیے درخواست دیتے بھی ہیں تو بھی اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ کسی طرح پہلا فیصلہ تبدیل ہو سکے۔
سابق وزیرِ قانون اور سینئر وکیل افتخار گیلانی نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، "آئین کہتا ہے کہ آپ نظر ثانی کی اپیل دائر کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ بہت کم قبول ہوتے ہیں۔ تا وقتیکہ اگر فل کورٹ اسے سنے اور اگر یہ بات مانی جائے تو کچھ (تبدیل) ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر وہی بینچ سنے تو بہت کم امید کی جا سکتی ہے کہ اس (فیصلے) کو تبدیل کیا جائے گا۔"
اطلاعات کے مطابق سابق وزیراعظم کے بیٹوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز، داماد محمد صفدر اور سمدھی اور وفاقی وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار بھی 28 جولائی کے عدالتی فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کرنے والے ہیں۔