رسائی کے لنکس

نیپال میں ہلاکتوں کی تعداد 5000 ہزار سے زائد ہو گئی


زلزلے کے 80 گھنٹے بعد فرانسیسی اور نیپالی ٹیمیں ایک 28 سالہ نوجوان رشی کھنال کو ایک سات منزلہ کے مبلے سے زندہ باہر نکالنے میں کامیاب ہوئیں۔

نیپال کی وزارتِ داخلہ نے بدھ کو کہا ہے کہ ملک میں ہفتے کے روز آنے والے شدید زلزلے میں مرنے والوں کی تعداد 5,006 ہو گئی ہے۔ اس سے پہلے نیپال کے وزیرِ اعظم سشیل کوئرالا نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ہلاکتوں کی تعداد 10,000 تک ہو سکتی ہے، کیونکہ ابھی تک دور دراز علاقوں سے جانی نقصان کی مکمل معلومات موصول نہیں ہوئیں۔

دنیا بھر سے امدادی ٹیمیں صاف پانی، ادویات اور کھانے کا سامان لے کر ہمالیہ پہاڑی سلسلے میں واقع، خشکی سے گھرے ملک نیپال پہنچ رہی ہیں۔

ملک کا واحد بین الاقوامی ائیرپورٹ کسی فوجی اڈے کا منظر پیش کرتا ہے۔ امداد لے کر آنے والی کئی پروازوں کو گھنٹوں انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔ امدادی سامان کی ترسیل میں خلل کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ بعد میں آنے والے جھٹکوں سے کئی مرتبہ ائیرپورٹ کو بند کرنا پڑا۔

منگل کو تھائی ائیرویز کی ایک پرواز جس میں جاپان ڈزاسٹر رسپانس کا 70 اراکین پر مشتمل اسکواڈ، جرنلسٹ اور دوسرے امدادی کارکن سوار تھے تھائی لینڈ سے روانہ ہونے کے ایک دن بعد نیپال پہنچا۔

ائیرپورٹ پر رش ہونے کی وجہ سے اسے کئی گھنٹے ہوا میں چکر لگا کر انتظار کرنا پڑا۔ اس دوران اس نے دو مرتبہ بھارت کے کلکتہ ائیر پورٹ سے ایندھں ڈلوایا۔

امداد پہنچنے میں خلل کی وجہ سے قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے اور زلزلے کے چار دن بعد اب ملبے تلے دبے افراد کو زندہ بچانے کی اُمید معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ ملبے تلے دبے افراد کو زندہ نکالنے کا امکان اب تقریباً صفر ہے۔

تاہم منگل کو زلزلے کے 80 گھنٹے بعد فرانسیسی اور نیپالی ٹیمیں ایک 28 سالہ نوجوان رشی کھنال کو ایک سات منزلہ اپارٹمنٹ بلڈنگ کے ایک کمرے سے پانچ گھنٹوں کی کوشش سے زندہ باہر نکالنے میں کامیاب ہو گئیں۔

وہ دوسری منزل پر ایک کمرے میں تین لاشوں کے ساتھ بغیر پانی اور خوراک کے پھنسا ہوا تھا اور بچاؤ کی ٹیموں کو اس وقت اس کی موجودگی کا علم ہوا جب اس نے چلا کر مدد کے لیے پکارا۔

زلزلے کے متاثرین گھروں کے منہدم ہونے اور بعد میں آنے والے زلزلے کے جھٹکوں کے خوف سے کھلے آسمان تلے دن گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان میں سے بہت لوگ امدادی کارروائیوں سے مطمئن نہیں۔ متاثرین میں تناؤ اور غصے کی کیفیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

نیپالی حکام نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ان سے ملک کے دور دراز دیہی علاقوں میں ابتدائی امداد پہنچانے میں غلطیاں ہوئی ہیں جہاں پھنسے ہوئے متاثرین مدد کے انتظار میں ہیں۔ امدادی کارکنوں کو وافر مقدار میں نیپال پہنچنے والے سامان کو زلزلے سے تباہ ہونے والی سڑکوں، پہاڑی علاقوں اور دشوارگزار راستوں کے باعث دور دراز علاقوں میں متاثرین تک پہنچانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

امدادی ہیلی کاپٹر دور دراز پہاڑی علاقوں میں اترنے سے قاصر ہیں۔ ایسے ہی ایک ہیلی کاپٹر پر سوار ٹیکنیشن شمبھو کھتری نے بتایا کہ ضلع گورکھا کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں زلزلے سے کئی پہاڑیاں گرنے سے وہاں موجود آبادیاں دفن ہو گئی ہیں اور ان تک رسائی تقریباً ناممکن ہو گئی ہے۔

جہاں فضائی رابطہ ممکن نہیں اب وہاں فوجیوں نے زمینی راستے سے بسوں اور پیدل امداد پہنچانے کے لیے سفر شروع کر دیا ہے۔

نیپال میں اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے سربراہ نے بتایا کہ نیپالی حکومت نے امدادی ایجنسیوں سے کہا ہے کہ اسے ملبے سے زندہ بچ جانے والوں کی تلاش کے لیے مزید غیر ملکی امدادی ٹیموں کی ضرورت نہیں۔ تاہم حکام نے عالمی برادری سے تربیت یافتہ طبی عملہ بھیجنے کے لیے درخواست کی ہے۔

اس سے قبل نیپال میں 80 برس قبل 1934ء میں اتنا شدید زلزلہ آیا تھا جس میں 8,500 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ موجودہ زلزلے سے بھارت اور تبت میں بھی 80 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

XS
SM
MD
LG