اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو نے برطانیہ پر زور دیا ہے کہ وہ ایران کے خلاف نئی تعزیرات عائد کرنے میں شامل ہو جائے۔ اُنھوں نے یہ بات پیر کے روز لندن میں برطانیہ کی اپنی ہم منصب تھریسا مے سے ملاقات کے دوران کہی، جب اُنھوں نے مقبوضہ علاقے میں نئی بستیوں کی تعمیر کے اسرائیل کے منصوبوں کے بارے میں خبردار کیا۔
نیتن یاہو نے کہا کہ ایران کی جانب سے بیلسٹک میزائل کا تجربہ کرنے کی پاداش میں ’’ذمہ دار‘‘ ملک نئے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ایران کے خلاف عائد کردہ تعزیرات کے معاملے کی تقلید کریں۔
ملاقات سے قبل، نیتن یاہو نے مے کو بتایا کہ ’’ایران اسرائیل کو صفحہٴ ہستی سے مٹانے کا خواہاں ہے، جو مشرق وسطیٰ کو فتح کرنا چاہتا ہے، وہ یورپ کے لیے خطرے کا باعث ہے، وہ مغرب کو دھمکیاں دیتا ہے، دنیا کو دھمکی دیتا ہے۔ اور وہ ایک کے بعد دوسری اشتعال انگیزی پر عمل پیرا ہوتا ہے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’یہی سبب ہے کہ میں ایران کے خلاف نئی تعزیرات عائد کرنے کے صدر ٹرمپ کے اقدام کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ میرے خیال میں دیگر ملکوں کو اس اقدام کے نقشِ قدم پر چلنا چاہیئے، یقینی طور پر ایسے ملک جو ذمہ دار ہیں۔ میں آپ سے گفتگو کرنا چاہوں گا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ایران کی جارحیت پر اُسے ضرور سزا ملنی چاہیئے‘‘۔
مے، جنھوں نے ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری سمجھوتے کی حمایت یا اعادہ کیا ہے، جس کی نیتن یاہو اور ٹرمپ سختی سے مخالفت کرتے ہیں، کہا ہے کہ وہ اپنی گفت و شنید میں ایران کے معاملے پر بات چیت کریں گے۔
اِس سے قبل، اُن کی ایک خاتون ترجمان نے کہا تھا کہ مے نیتن یاہو کو بتائیں گی سنہ 1967 کی مشرق وسطیٰ کی لڑائی کے دوران زیر ہونے والے علاقے میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر، جن کے بارے میں فلسطینیوں کو توقع ہے کہ ایک دِن وہاں ایک آزاد ریاست بنے گی، خطے کے اعتماد کو نقصان پہنچتا ہے۔
اُن کے اختلافات کے باوجود، جب گذشتہ سال یورپی یونین سے الگ ہونے پر ووٹنگ کا معاملہ سامنے آیا اور مے وزیر اعظم بنیں، برطانیہ نے اسرائیل کے ساتھ مثبت انداز اختیار کیا؛ اور ٹرمپ کے طریقہٴ کار کا زیادہ ہمدردانہ جواب دیا ہے، برطانیہ چاہتا ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد وہ امریکہ سے تجارت کو فروغ دے گا۔
گذشتہ ماہ برطانیہ نے کہا تھا کہ اُسے فرانس کی جانب سے پیرس میں منعقد کردہ امن کانفرنس کے بارے میں تحفظات ہیں، اور اُس نے 70 ملکوں کی طرف سے منظور کیے گئے حتمی اعلامیہ کی حمایت نہیں کی تھی، جس میں اسرائیل فلسطین تنازع کو حل کرنے کے لیے صرف دو ریاستی حل کی حمایت کا اعادہ کیا گیا تھا۔ برطانیہ کے اس رویے پر یورپی یونین کے متعدد ارکان برہم ہوئے تھے۔
دسمبر میں، اسرائیلی مؤقف پر نکتہ چینی پر ،برطانیہ نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کو جھاڑ پلائی تھی۔
مے نے نیتن یاہو سے کہا کہ برطانیہ ’’اسرائیل کا مضبوط اور قریبی دوست ہے‘‘، اور دونوں کے مابین سائنس، تجارت اور سکیورٹی کے شعبہ جات میں تعاون کی نشاندہی کی۔