اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہوجنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں الزام لگایا کہ اسرائیل نے ماضی میں امن کی جتنی کوششیں کی ہیں انہیں فلسطینی قیادت نے یا تو رد کیا ہے یا ناکام بنایا ہے۔
جمعہ کو صدر محمود عباس کی تقریر کے بعد انہوں نے اقوام متحدہ کے ارکان سے کہا کہ فلسطینی ایک ایسی ریاست چاہتے ہیں جس میں امن کی کوئی ضمانت نہ ہو۔
وزیر اعظم نیتن یاہو کے مطابق ماضی میں اسرائیلی وزرائے اعظم نے فلسطینی رہنماؤں یاسر عرفات اور صدر عباس کے سامنے ایسے سمجھوتے رکھے جن میں فلسطینیوں کے اکثر مطالبات کو تسلیم کیا گیا تھا، لیکن ان سمجھوتوں کو رد کر دیا گیا۔
انہوں نے الزام لگایا کہ جب بھی انہوں نے امن کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے کوئی قدم اٹھایا، فلسطینی فریق نے اس کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔ مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے دور میں دس ماہ کے لیے یہودی بستیوں کی تعمیر پر پابندی لگا دی گئی مگر اس کا بھی دوسری طرف سے کوئی مثبت جواب موصول نہیں ہوا۔
ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے مسٹر نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل نے جب امن کی امید میں غزہ کو خالی کیا تو ایران کی حمایت سے حماس نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا اور اسرائیل پر جنگ مسلط کر دی۔
انہوں نے امن کے لیے اپنا نکتہ نظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ایسی فلسطینی ریاست کے حق میں ہیں جس کی کوئی فوج نہ ہو اور جو فلسطینی پناہ گزینوں کو اپنے دامن میں جگہ دے۔
اسرائیل کا موقف ہے کہ اگر ان تمام فلسطینی پناہ گزینوں کو واپسی کی اجازت دے دی گئی جو 1967 کی جنگ میں بے گھر ہوئے تھے تو اسرائیل ایک یہودی ریاست نہیں رہے گا۔
مسٹر نیتن یاہو کے مطابق اسرائیل کی سلامتی کے لیے ضروری ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے بعد بھی غرب اردن کے اسٹریٹیجک علاقوں میں اسرائیلی فوج موجود رہے۔
صدر عباس اس تجویز کو رد کر چکے ہیں۔
صدر عباس کے ایک الزام کا جواب دیتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ یہودی بستیاں اس تنازعے کی بنیاد نہیں ہیں بلکہ اس کا نتیجہ ہیں۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جسے حل کرنا ہے اور یہ مسئلہ اس لیے حل نہیں ہوتا کہ فلسطینی لیڈر اسرائیل کو ایک یہودی ریاست ماننے کو تیّار نہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ فلسطینیوں کو اپنی آزاد ریاست میں رہنا چاہیے مگر ایسا تب ممکن ہے جب وہ اسرائیل کی سلامتی کے بارے میں سنجیدہ ہوں گے کیونکہ اسرائیل بے حد کم رقبے کا ایک چھوٹا سے ملک ہے جس کے لیے سلامتی کے مسائل بے حد اہم ہیں۔
اس سے قبل فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران رکن ممالک کو یہ اطلاع دیتے ہوئے کہ انہوں نے فلسطینی ریاست کی اقوام متحدہ میں بطور مکمل رکن داخلے کی درخواست باقاعدہ طور پر داخل کر دی ہے، اس معاملے میں ان کی حمایت کی درخواست کی تھی۔
سیکرٹری جنرل بان کی مون یہ درخواست سلامتی کونسل کو بھیج چکے ہیں۔