اسرائیل کے وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ایک بار پھر امن عمل میں تعطل کی ذمہ داری فلسطینی اتھارٹی پر ڈالتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اسرائیل کسی صورت "دو قومی ریاست" نہیں بنے گا۔
اتوار کو یروشلم میں کابینہ کے ہفتہ وار اجلاس سے خطاب کرتےہوئے اسرائیلی وزیرِاعظم نے کہا کہ اسرائیل ایک یہودی ریاست ہے اور رہے گا۔
اسرائیلی وزیرِاعظم کا یہ بیان امریکہ کے وزیرِ خارجہ جان کیری کے ایک روز قبل دیے جانے والے اس بیان کا ردِ عمل ہے جس میں انہوں نے خبردار کیا تھا کہ اگر فلسطین اسرائیل تنازع کے حل کی جانب پیش رفت نہ ہوئی تو اسرائیل یہودی ریاست کی شناخت برقرار نہیں رکھ سکے گا۔
جان کیری نے ہفتے کو واشنگٹن میں ایک تھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ خطے کی موجودہ صورتِ حال میں تنازع کے "دو ریاستی حل" کا حصول مشکل ہوتا جارہا ہےجس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اسرائیل اپنی یہودی اور جمہوری ریاست کی شناخت کھو بیٹھے گا۔
امریکی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ خطے میں جاری تشدد، مقبوضہ علاقوں میں یہودی آبادکاری، فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری اور دو ریاستی حل کا معدوم ہوتا امکان فلسطینی اتھارٹی کی تحلیل کا سبب بن سکتا ہے جس کے بعد اسرائیل کو فلسطینی علاقوں کا انتظام سنبھالنا پڑسکتا ہے۔
جان کیری نے کہا تھا کہ یہ اسرائیل کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ اپنے اختلافات دور کرے اور فلسطینیوں کی علیحدہ ریاست کے قیام پر آمادہ ہو۔
انہوں نے کہا تھا کہ اگر فلسطینیوں کی ریاست قائم نہ ہوئی تو اسرائیل بھی مستحکم، محفوظ، جمہوری، پرامن اور یہودی شناخت کا حامل نہیں رہ سکے گا۔
لیکن اتوار کو کابینہ سے اپنے خطاب میں اسرائیلی وزیرِاعظم نے جان کیری کا نام لیے بغیر ان کے بیان اور خدشات کو رد کردیا۔
نتین یاہو نے کہا کہ خطے میں قیامِ امن اسی وقت ممکن ہوسکا ہے جب فریقِ مخالف بھی امن چاہتا ہو۔ ان کے بقول اس وقت المیہ یہ ہے کہ فلسطینی امن نہیں چاہتے اور فلسطینی اتھارٹی مسلسل عربوں کو اسرائیل کے خلاف اقدامات پر اکسا رہی ہے۔
اسرائیلی وزیرِاعظم نے سوئیڈن کی وزیرِ خارجہ مارگوٹ وال اسٹروم کے جمعے کے بیان پر بھی برہمی ظاہر کی جس میں انہوں نے اسرائیل کے فلسطینیوں کے ماورائے عدالت قتل میں ملوث ہونے کاشبہ ظاہر کیا تھا۔