|
ویب ڈیسک — اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں تین گھنٹے کی تاخیر کے بعد جنگ بندی کا آغاز ہوگیا ہے۔ جنگ بندی میں تاخیر حماس کی جانب سے رہا کیے جانے والے تین یرغمالوں کے نام جاری کرنے میں آنے والے التوا کی وجہ سے ہوئی تھی۔
اس سے قبل اسرائیل نے اعلان کیا تھا کہ عسکریت پسند تنظیم حماس کی جانب سے معاہدے کے مطابق آزاد کیے جانے والے یرغمالوں کے نام موصول ہونے تک غزہ میں جنگ بندی نہیں کی جائے گی۔
حماس کے مسلح ونگ نے رہا کیے جانے والے یرغمالوں کے نام سوشل میڈیا پر جاری کر دیے ہیں تاہم اس پر اسرائیل کی جانب سے کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
حماس نے تین یرغمالوں کے نام جاری کیے ہیں جن کو اتوار کو رہا کیا جائے گا۔
اسرائیلی اخبار ’ٹائمز آف اسرائیل‘ کے مطابق حماس کی جانب سے جن تین یرغمالوں کو رہا کیا جائے گا وہ تین لڑکیاں ہیں ان میں جنوبی اسرائیل سے یرغمال بنائی گئی 31 سالہ دورون اسٹین بریچر، 28 سالہ ایملی دیماری اور 23 سالہ رمی گونین شامل ہیں۔ ایملی دیماری کے پاس برطانیہ کی بھی شہریت ہے۔
قبل ازیں اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اتوار کو صبح سویرے کہا تھا کہ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس جب تک اُن تین یرغمالوں کے نام فراہم نہیں کرتی جنہیں متعدد فلسطینی قیدیوں کے بدلے میں اتوار کو رہا کیا جانا ہے۔ اس وقت تک غزہ میں جنگ بندی نہیں ہو گی۔
امریکی خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ انہوں نے اسرائیلی فوج کو ہدایات دی ہیں کہ جنگ بندی جس کا آغاز صبح ساڑھے آٹھ بجے ہونا ہے۔ لیکن حماس جب تک رہا کیے جانے والے یرغمالوں کی فہرست فراہم نہیں کرے گی، جنگ بندی شروع نہیں ہوگی۔
خیال رہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم کی طرف سے ایسی ہی تنبیہ ایک رات قبل بھی کی گئی تھی۔
دوسری طرف حماس نے ناموں کی فہرست میں تاخیر کی تکنیکی وجوہات بتائی ہیں۔
حماس کا جاری کردہ بیان میں کہنا ہے کہ وہ پچھلے ہفتے اعلان کردہ جنگ بندی معاہدے پر قائم ہے۔
ایسی صورتِ حال میں طے شدہ معاہدے کے تحت یرغمالوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی سے متعلق خدشات بڑھ گئے ہیں جو کہ 15 ماہ سے جاری جنگ ختم کرنے کی طرف پہلا قدم سمجھا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ 42 روزہ جنگ بندی کے پہلے فیز میں 33 اسرائیلی یرغمالوں کی غزہ سے واپسی ہونا ہے جب کہ سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جانا ہے۔
معاہدے کے مطابق اسرائیلی فورسز کو غزہ میں بفرزون میں آنا ہوگا اور بے گھر ہونے والے فلسطینی اپنے گھروں واپس جاسکیں گے۔
علاوہ ازیں ابتدائی جنگ بندی معاہدے کے تحت تباہ شدہ علاقے میں امدادی سرگرمیاں بھی بڑھا دی جائیں گی۔
اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ اس نے جنگ بندی سے چند گھنٹے قبل ایک خصوصی آپریشن میں اسرائیلی فوجی اورن شال کی لاش برآمد کی ہے جو کہ 2014 میں اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونے والی جنگ میں ہلاک ہوا تھا۔
رپورٹس کے مطابق شال کے علاوہ ایک اور فوجی حادر گولڈِن کی لاش 2014 کی جنگ کے بعد غزہ میں ہی تھیں۔
ان فوجیوں کی لاشوں کو ان کے اہلِ خانہ کے مطالبات کے باوجود واپس نہیں کیا گیا تھا۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان شروع ہونے والی اس جنگ میں یہ دوسرا جنگ بندی کا معاہدہ ہے جو کہ ایک سال پہلے ایک ہفتے پر محیط ہونے والے معاہدے سے طویل اور نتیجہ خیز ہو سکتا ہے جب کہ مبصرین کے مطابق اس جنگ بندی معاہدے میں جنگ ختم کرانے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔
رپورٹس کے مطابق جنگ بندی سے متعلق دوسرے فیز میں مذاکرات کا آغاز دو ہفتوں میں ہو گا جب کہ اصل سوالات کے جواب آنا ابھی بھی باقی ہے جیسا کہ چھ ہفتوں کی جنگ بندی کے بعد جنگ ایک بار پھر شروع ہو گی یا نہیں اور بقیہ لگ بھگ 100 یرغمالوں کی غزہ سے رہائی کیسے ممکن ہو گی؟
فلسطینیوں کی واپسی شروع
رپورٹس کے مطابق اسرائیلی سرحد کے قریب ٹینکوں کی بمباری کے باوجود اتوار کی صبح فلسیطینیوں کی اپنے گھروں کو واپسی شروع ہو گئی ہے جب کہ رہائشیوں کو پیدل اور اپنے سامان کو گدھا گاڑیوں پر لاد کر واپس جاتے دیکھا جا سکتا ہے۔
خیال رہے کہ اسرائیلی کابینہ نے ایک غیر معمولی اجلاس کے دوران ثالثوں کی جانب سے معاہدے کے اعلان کے بعد ہفتے کی صبح معاہدے کی منظوری دی تھی۔
فریقین پر دباؤ تھا کہ وہ پیر کو امریکہ کے صدر کی حلف برداری سے قبل ایک معاہدے پر پہنچ جائیں۔
اس خبر کے لیے معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔