بھارتی وزیرِ داخلہ نے کشمیر میں نافذ 'افسپا' ایکٹ منسوخ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ماہرین نے اسے حکمراں جماعت کی جانب سے کشمیری ووٹر کو راغب کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ اگر کشمیر میں حالات معمول پر ہیں تو پھر فوری طور پر افسپا کو ہٹانے میں کیا ممانعت ہے: سابق وزیرِ اعلٰی عمر عبداللہ |
بھارت کے وزیرِ داخلہ اُمت شاہ نے کہا ہے کہ مرکزی حکومت بھارتی کشمیر میں نافذ آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ (افسپا) کو منسوخ کرنے پر غور کر سکتی ہے۔ مذکورہ ایکٹ کے تحت مسلح افواج کو علاقے میں جاری شورش اور امن و قانون کے مسائل سے نمٹنے کے لیے بے پناہ اختیارات حاصل ہیں۔
اُمت شاہ کا کہنا تھا کہ مسلح افواج کو بیرکوں میں واپس بلا کر علاقے میں امن اور قانون کی عمل داری کی ذمے داری مکمل طور پر مقامی پولیس کو سونپی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں لازمی اقدامات اٹھانے کا عمل پہلے ہی شروع کردیا گیا ہے۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے امت شاہ کے اس بیان پر محتاط ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی حکومت کو یہ اقدام بہت پہلے اٹھانا چاہیے تھا۔
سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ اگر حکومت سنجیدہ ہے تو اس کا ثبوت مقامی صحافیوں اور ان ہزاروں کشمیری نوجوانوں کو فوری طور پر رہا کرنے سے دینا چاہیے جو بغیر کسی جرم یا استغاثہ کے جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔
تاہم بعض اپوزیشن لیڈروں نے جن میں سابق وزیرِ اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبد اللہ بھی شامل ہیں کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ بھارتی وزیرِ داخلہ کا یہ بیان ایک انتخابی اسٹنٹ ہو اور وہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو ملک میں ہونے والے عام انتخابات سے پہلے بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہوں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امت شاہ کا جموں و کشمیر سے افسپا ہٹانے کے امکان کے بارے میں اچانک دیا گیا یہ بیان بھارت کے عام ووٹر پر کوئی اثر نہیں ڈالے گا کیوں کہ یہ قانون انہیں براہِ راست متاثر نہیں کرتا ہے۔ تاہم جموں و کشمیر کے لوگ اس طرح کے اقدام کا خیر مقدم کریں گے اور یہ بھارتی پارلیمان اور جموں و کشمیر اسمبلی کے لیے اسی سال ہونے والے عام انتخابات میں کئی ووٹروں کی ترجیحات کو طے کر سکتا ہے۔
اُمت شاہ نے ایک مقامی نجی ٹیلی ویژن چینل 'گلستان نیوز' کو دیے گیے اپنے انٹرویو میں کہا ہے "ہمارا مسلح افواج کو (شہری علاقوں سے) واپس بلانے اور امن و قانون کا کام مکمل طور پر جموں و کشمیر پولیس کو سونپنے کا اراد ہ ہے۔ پہلے جموں و کشمیر پولیس پر بھروسہ نہیں کیا جاتا تھا لیکن اب وہ (عسکریت پسندوں کے خلاف) آپریشنز میں ہر اول دستے کا کردار نبھارہی ہے۔ ہم افسپا کو بھی منسوخ کرنے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔"
افسپا کو جموں و کشمیر میں کب اور کیوں نافذ کیا گیا؟
افسپا کو جموں و کشمیر میں 1990 میں مسلح تحریکِ مزاحمت کے آغاز پر بغاوت کو کچلنے کے لیے لاگو کیا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت شورش سے متاثرہ قرار دیے گیے علاقوں میں تعینات مسلح افواج کو صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے گرفتاری عمل میں لانے، تلاشی لینے اور اگر"پبلک آرڈر کو برقرار رکھنے کے لیے" ضروری سمجھا گیا تو گولی چلانے جیسے اختیارات حاصل ہیں۔
یہاں تک کہ وہ ایسی املاک کو تباہ کر سکتی ہیں جن کے بارے میں انہیں شک ہو کہ انہیں دہشت گردی یا امن مخالف سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ افسپا کے تحت ایک علاقے یا ضلعے کو مسلح افواج کے آپریشنز کے لیے آسانی فراہم کرنے کی غرض سے شورش زدہ قرار دیا جاتا ہے۔
کم و بیش اسی طرح کا قانون متحدہ ہندوستان میں برطانوی دور حکومت میں بھی نافذ تھا اور اس کا مقصد 'ہندوستان چھوڑ دو' تحریک کو کچلنا تھا۔
آزادی کے بعد افسپا کو 1947 میں چار الگ الگ ضابطوں کی شکل میں جاری کیا گیا تھا جنہیں ایک سال بعد یعنی 1948 میں باضابطہ طور پر ایک ایکٹ کی شکل دی گئی تھی اور پھر موجودہ صورت میں قانون کو جسے 1958میں اُس وقت کے وزیرِ داخلہ جی بی پنت نے بھارتی پارلیمان میں متعارف کرایا تھا سب سے پہلے ملک کے شمال مشرقی علاقوں میں نافذ کیا گیا۔
ابتدا میں یہ قانون آرمڈ فورسز (آسام اینڈ منی پور) سپیشل پاورز ایکٹ مجریہ 1958کہلاتا تھا۔ جب اروناچل پردیش، میگھالیہ، میزورم اور ناگالینڈ ریاستوں کا قیام عمل میں لایا گیا تو ان علاقوں میں جاری شورش اور علیحدگی پسند تحریکوں کے پیشِ نظر وہاں بھی افسپا کو لاگو کیا گیا۔
قانون کے غلط استعمال کی شکایات
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور خود بھارت میں سرگرم انسانی حقوق کارکنوں اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ ان ریاستوں ہی کی طرح جموں و کشمیر میں اس قانون کا ناجائز استعمال ہوا ہے اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے مرتکب فوجی سزا سے بچنے کے لیے اس کی آڑ لیتے چلے آئے ہیں۔
تاہم بھارتی عہدیدار کہتے ہیں کہ اس قانون کے باوجود جموں و کشمیر میں درجنوں ایسے فوجیوں اور دوسرے سیکیورٹی اہلکاروں کو سزائیں دی گئی ہیں جنہوں نے شورش سے نمٹنے کے دوراں اپنے اختیارات سے تجاوز کیا تھا۔
عہدیداروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ شکایات کی فوری شنوائی ہوتی ہے اور اس حوالے سے صورتِ حال میں حالیہ برسوں کے مقابلے میں نمایاں بہتری ہوئی ہے۔
جموں و کشمیر میں دہشت گردی آخری سانسیں لے رہی ہے: اُمت شاہ
امت شاہ نے اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ جموں و کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبد اللہ اور محبوبہ مفتی کو دہشت گردی پر بات کرنے کا کوئی حق نہیں ہے کیوں کہ ان کے ادوارِ حکومت میں بے گناہ لوگ مارے گئے تھے۔
اُن کے بقول ان وزرائے اعلٰی کے دور میں اتنے زیادہ تعداد میں جعلی مقابلے ہوئے جس کی کسی اور دورِ حکومت میں نظیر نہیں ملتی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ جموں و کشمیر میں گزشتہ پانچ برس میں سیکیورٹی فورسز کی طرف سے کوئی جعلی مقابلہ نہیں ہوا بلکہ اس سے پہلے پیش آئے اس طرح کے واقعات کی تحقیقات کرائی گئیں، مقدمات درج ہوئے اور ملوث افراد کے خلاف کارروائیاں کی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں اُن کے بقول دہشت گردی آخری سانسیں لے رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت نے کئی عسکری تنظیموں کو غیر قانونی قرار دے کر ان پر پابندی لگا دی ہے اور ان سے وابستہ 36افراد کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے حکومت کے اس دعوے کو بھی دہرایا کہ جموں و کشمیر میں امن بحال ہوا ہے۔ انہوں نے استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحاد کُل جماعتی حریت کانفرنس سے بات چیت کرنے کے امکان کو مسترد کردیا اور کہا کہ اگر بات چیت ہوسکتی ہے تو صرف جموں و کشمیر کے ایسے نوجوانوں کے ساتھ جو بھارتی آئین کو مانتے ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں کا ردِ عمل
سابق وزیرِ اعلٰی محبوبہ مفتی نے ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے سماجی ویب سائٹ 'ایکس' پر لکھا کہ "پی ڈی پی فوج کی مرحلہ وار واپسی کے ساتھ افسپا کو منسوخ کرنے کا مسلسل مطالبہ کرتی آئی ہے۔"
اُن کے بقول یہ بی جے پی کے ساتھ ہمارے اتحاد کے سلسلے میں طے پائے ایجنڈے کا بھی ایک اہم حصہ تھا جس پر اس نے کھلے دل سے اتفاق کیا تھا۔"
سابق وزیرِ اعلٰی عمر عبداللہ نے بدھ کو دارالحکومت سرینگر کے قریب واقع بڈگام علاقے میں ایک پارٹی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ اگر حالات معمول پر آ گئے ہیں اور عسکریت پسندی ختم ہو گئی ہے تو پھر کس بات کا انتظار ہے۔ افسپا کو تو پہلے ہی منسوخ کر دینا چاہیے۔
'عام ووٹر کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں'
تجزیہ کار پروفیسر (ڈاکٹر) نور احمد بابا کا کہنا ہے کہ جہاں تک بھارت کے عام ووٹر کا تعلق ہے اُس کی افسپا اور اس کے محرکات میں کوئی دلچسپی نہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ عام ووٹر براہِ راست اس سے کبھی متاثر ہوا ہے اور نہ آگے ہو گا۔ لیکن جموں و کشمیر کے شہریوں کے لیے یہ ایک اہم معاملہ ہے اور بھارتی وزیرِ داخلہ اپنے اس بیان کے ذریعے ان میں سے کئی ایک کو لبھانے میں کامیاب بھی ہو سکتے ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی یا بی جے پی جموں و کشمیر اور لداخ کی چھ کی چھ نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرنا کا اعلان کر چکی ہے اور اسے امید ہے کہ وہ ان میں سے کم از کم چارنشستوں پر کامیابی بھی حاصل کرلے گی۔
وہ یہ بھی دعویٰ کرتی ہے کہ اسے اسی سال کرائے جارہے جموں و کشمیر اسمبلی کے انتخابات میں نوے میں سے کم از کم پچاس نشستیں ملیں گی اور وہ اپنے بل بوتے پر ریاستی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گی۔
نور احمد بابا کہتے ہیں"امت شاہ کا بیان جموں و کشمیر کے ووٹروں کے لیے ایک کشش بن سکتا ہے اور ظاہر ہے بی جے پی اس سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کرے گی۔
فورم