پاکستان میں عیدالاضحیٰ کے موقع پر ریلیز ہونے والی کئی فلموں کی دھوم مچی ہے۔ انہی فلموں میں سے ایک ہے ’آپریشن زیرو ٹو ون‘۔
فلم کے ہیرو پاکستانی فلموں کے سپراسٹار شان ہیں۔ شان کی جس فلم نے لوگوں کے دل جیتے اور جو فلم ملکی تاریخ میں ایک سنگ میل کا درجہ حاصل کر گئی وہ تھی ’وار‘۔ اس فلم نے وہ شہرت حاصل کی کہ لوگ شان سے اسی نوعیت کی بلاک بسٹر کے منتظر ہیں۔ لہذا، جیسے ہی ’آپریشن زیرو ٹو ون‘ کا ٹریلر ریلیز ہوا سب کو یہی امید بندھ گئی کہ ’آپریشن زیرو ٹو ون‘ شاید ’وار‘ کے بھی ریکارڈ توڑ دے۔
نئی فلم ’آپریشن زیرو ٹو ون‘ اسپائے تھرلر ہے۔۔یعنی جاسوسی کے نئے اسرار و رموز لئے۔۔۔فلم کو پروڈیوس کیا ہے زیبا بختیار اور ان کے بیٹے اذان سمیع خان نے۔ زیرو ٹو ون ’ون موشن پکچرز‘ کا پروجیکٹ ہے جس کا مقصد عام ڈگر سے ہٹ کرنئی فلمیں بنانا ہے۔
فلم کی کاسٹ میں شان شاہد کے علاوہ شمعون عباسی، آمنہ شیخ، ایوب کھوسو، ایمان علی اور گوہر رشید شامل ہیں۔
فلم کے حوالے سے کچھ انٹرنیٹ سائٹس پر یہ خبریں آرہی تھیں کہ فلم ’وار‘ میں شان کے مقابل دبنگ ولن کا رول ادا کرکے مقبولیت حاصل کرنے والے شمعون عباسی ’آپریشن زیروٹوون‘ میں بھی اہم کردار نبھا رہے تھے۔ لیکن، ان کا کردار گیسٹ اپیئرنس یا ’کیمو‘۔۔یا۔۔مہمان اداکار ۔۔۔تک محدود کردیا گیا ہے۔
لگ یوں رہا ہے کہ شاید ’آپریشن زیروٹوون‘ کے یونٹ والوں کے درمیان ’سب کچھ اچھا نہیں تھا‘۔۔اس کی تصدیق پہلے فلم کے ٹریلرکی تقریب میں شمعون عباسی کی غیر حاضری اور پھر تقریب کے فوراً بعد شمعون کے پرسنل اکاوٴنٹ پر ان کے بیان سے بھی ہوگئی۔
شمعون نے اپنی پوسٹ میں فلم کی کامیابی کے لئے نیک خواہشات کا اظہار تو کیا۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ ’مجھے فلم کی پروموشنل کیمپین یا اشتہاری مہم کے لئے مدعونہیں کیا گیا۔۔اور یہ بھی ظاہر ہے کہ میں فلم کا حصہ بھی نہیں رہا۔ یقیناً فلم میکرز کے پاس فلم میں محنت اور لگن سے کئے گئے میرے کام کو مختصرکرکے کیمو تک محدود کرنے کی کوئی وجہ ہوگی۔امید ہے فلمی شائقین ’ آپریشن زیروٹوون‘ کو بھرپور پذیرائی بخشیں گے۔‘
وائس آف امریکہ نے فلم سے جڑے اس پہلو کی حقیقت کو سمجھنے اور اسے دور کرنے کے لئے ’آپریشن زیرو ٹو ون‘ کے ڈائریکٹر اور مصنف جامی محمود، آسٹریلیوی فلمساز سمرنکس سے جو ابتداء میں اس فلم کو ڈائریکٹ کر رہے تھے ان سے اور شمعون عباسی سے اس موضوع پر تحریری تبادلہ خیال کیا۔ سمرنکس جو اس وقت آسٹریلیا میں مقیم ہیں اور جامی محمود نے اپنے اپنے تحریری بیانات جاری کئے۔ تاہم، شمعون عباسی سے رابطے کے باوجود ان کا وی او اے کو کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
جامی محمود سے وی او اے کی گفتگو کے بعد جو چیزیں سامنے آئی ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں :
آپریشن ’زیرو ٹو ون‘ کرنے کا خیال کیسے آیا؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے جامی محمود کا کہنا تھا ’پہلے میں فلم کا کو پروڈیوسر تھا، جبکہ سمرنکس ڈائریکٹر تھے۔ لیکن اچانک سمرنکس کو ویزہ کے کچھ مسائل درپیش ہوگئے یہاں تک کہ مجھے سمر نکس کی جگہ آنا پڑا۔ میں نے اپنے انداز میں کہانی دوبارہ لکھی اور ڈائریکٹ کی اور یوں آہستہ آہستہ سب ہوتا گیا۔ فلم کی بنیاد سمرنکس کی اسٹوری پر ہی رکھی گئی ہے۔
فلم کی کہانی کیا ہے؟ پہلا اسکرپٹ کس نے لکھا اور فائنل کس نے کیا؟
فلم کی کہانی افغانستان میں کھربوں ڈالرز کے معدنی ذخائر کی دریافت اور کارپوریٹ سیکڑ کے لالچ کے گرد گھومتی ہے۔ میرے لئے فلم کا تجربہ زبردست رہا۔ اس کے ذریعے مجھے کراچی، کوئٹہ اور امریکن ایکٹرز کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔
کچھ انٹرنیٹ آرٹیکلز میں پروڈکشن ٹیم کو الزام دیا گیا ہے کہ انہوں نے شمعون عباسی کو فلم سے نکال دیا۔ اس بارے میں کچھ بتائیے۔
شمعون فلم دیکھے بغیر کہہ رہے ہیں کہ کسی وجہ سے ہم نے ان کے سارے سینز فلم سے نکال دئیے۔ شمعون ایک آرٹسٹ ہیں اور آرٹسٹ اکثر جارحانہ ردعمل کا اظہار کردیتے ہیں اسی لئے میں نے برا نہیں مانا۔میں فلم کی بہتری کے لئے اس میں سے سین نکال بھی سکتا ہوں اور اضافہ بھی کرسکتا ہوں۔
فلم کو اب تک ملنا والا ردعمل کیسا ہے؟
شاندار۔ غیرمعمولی پذیرائی مل رہی ہے۔
آپ کسی اورفلم کے پروجیکٹ پر کام کررہے ہیں؟
جی۔۔ ’دی پرزنرز‘ نامی کتاب پرکام جاری ہے۔
لالی ووڈ فلموں کا پاکستان اورانٹرنیشنل مارکیٹ میں کیا مستقبل ہے؟
زبردست۔ شاندار۔۔
اسی حوالے سے سمر نکس سے بھی بہت سی معلومات حاصل ہوئیں مثلاً جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ فلم کا ابتدائی اسکرپٹ کس نے لکھا تھا؟ تو ان کا کہنا تھا:
’مختلف زاویوں پر مبنی کم بجٹ اور کم لوکیشنز کے بارے میں جاننے کے بعد اوریجنل اسکرین پلے میں نے لکھا تھا جسے شروع میں ’دی ایکسٹورشنسٹ‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اذان اور زیبا جی سے ملنے کے بعدہم نے کیریکٹرز پر کام شروع کیا۔ اس کے بعد میں ایک کے بعد دوسرا ڈرافٹ لکھتا گیا۔ پھرایک وقت آیا جب اذان اور میں اس نتیجے پر پہنچے کہ یہی وہ فلم ہے جو ہم بنانا چاہتے تھے۔
’ایک لحاظ سے یہ خوفزدہ کرنے والی بات بھی تھی، کیونکہ جیسے جیسے ہم اسٹوری اور کیریکٹرز کی گہرائی میں جاتے گئے، فلم بڑی ہوتی گئی۔ لیکن، بیک وقت یہ ایکسائٹینگ بھی تھا کہ’دی ایکسٹورشن‘ سے ’آپریشن زیروٹوون‘ کی تخلیق ہوئی۔لیکن آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ جوفلم آپ دیکھیں گے وہ بہت سے لوگوں کے مشورے اورتعاون سے لکھی گئی ہے ۔ان میں سے ہرشخص اوریجنل اسکرین پلے کو بہتر سے بہترانداز میں پیش کرنا چاہتا تھا۔
آپ شروع میں ہی فلم کو کیوں چھوڑ گئے؟
اس حوالے سے بہت سی غلط فہمیاں ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فلم چھوڑنے کی باتیں صحیح نہیں ۔ہم نے اس وقت کے اسکرپٹ کے اورشیڈول کے حساب سے شوٹنگ کی تھی۔فلموں کے مختلف فیزہوتے ہیں۔ہم پہلے فیز میں فلمنگ اورایڈیٹنگ کرتے ہیں۔اگرسب ٹھیک ٹھاک لگے تو اسے ہی آگے بڑھادیتے ہیں بصورت دیگر دوبارہ شوٹنگ کی جاتی ہے۔ہم اسے’پیچ ورک‘کہتے ہیں۔جب فلم ایڈیٹنگ سے گزرجاتی ہے تو پھرپوری اسٹوری کومکمل کیا جاتا ہے۔ یہ فلم میکنگ کا ایک عام طریقہ کار ہے جس سے آڈینز واقف نہیں ہوتے۔
کچھ نئے کردار جنم لیتے ہیں جبکہ کچھ پرانے کردارکٹنگ روم کے فلوپردم توڑدیتے ہیں۔نئے سیکونسز فلمائے جاتے ہیں جبکہ پرانے نکال دیئے جاتے ہیں۔یہ سب کچھ عام بات ہے اورخاصا تکلیف دہ عمل بھی کیونکہ فلم کے کچھ حصوں سے آپ کو لگاوٴ ہوجاتا ہے۔لیکن بڑی فلم کے لئے یہ عمل ضروری ہوتا ہے۔جب میں پہلے فیز یا پاسٹ کی فلمنگ مکمل کرکے پاکستان سے گیا تھا توسوچا نہیں تھاکہ ہمیں مزید شوٹنگ کرنا پڑے گی۔میں فوری طورپرواپس نہیں آسکتا تھا لیکن میں پوسٹ پروڈکشن کے عمل کے دوران اذان اورجامی سے مستقل رابطے میں تھا تاکہ فلم کو بہتر سے بہتر انداز میں بنایا جا سکے۔
فلم کے پری ویوکے بعد میں بہت خوش ہوں ۔ اذان اور جامی نے اپنی محنت اور ہنر سے بین الاقوامی معیار کی فلم تخلیق کی ہے۔میں بہت فخرمحسوس کررہا ہوں۔
ویزا کا کیا مسئلہ تھا جس کے بارے میں لوگ باتیں کررہے ہیں؟
ویزا کا کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں۔پوری دنیا میں ویزوں پرایکسپائری ڈیٹ ہوتی ہے۔چاہے ویزا ایک مہینے کے لئے دیا گیا ہویا پانچ سال کے لئے۔جب ویزا ختم ہوتو آپ کو واپس جانا ہوتا ہے۔
کیا آپ اب بھی فلم کے کو ڈائریکٹر ہیں؟
فلم کے کریڈٹس دیکھیں۔۔یقینا میں کو ڈائریکٹر ہوں۔
پاکستان میں فلم بنانے کا تجربہ کیسا رہا؟
دنیا بھرمیں فلم ایک ہی طرح سے بنائی جاتی ہیں کیونکہ فارمولا نہیں بدلتا۔لیکن میں یہ بھی کہوں گا کہ فلم بنانے کا تجربہ ایسا ہوتا ہے جیسے کوئی صاحب اولاد ہوجائے۔ بیوی کی دیکھ بھال ،بچے کی پرورش۔۔اپنی تمام ترتوانائیاں اس وقت تک بچے کو دینا جب تک وہ اپنے پیروں پرکھڑا نہ ہوجائے۔ لیکن ان سب مشکلات کا جو پھل ملتا ہے وہ بہت بڑا ہوتا ہے کبھی کبھی اسے بیان بھی نہیں کیا جا سکتا۔مطمئن ہونے کا احساس اوربے پناہ محبت۔۔۔ایسے احساسات توہمیشہ آپ کے دل میں رہتے ہیں اورجنھیں کوئی چھین نہیں سکتا۔
آپ کا پروڈکشن ٹیم اورپاکستانی لوگوں سے میل جول کیسا رہا؟
پاکستانی کریو کے ساتھ کام کرنا شاندار تجربہ تھا۔جن ٹیمز کے ساتھ میں نے کام کیا۔۔خصوصا ’آپریشن زیروٹوون ‘کی ٹیم ۔۔۔سب کام سے بہت لگاوٴرکھتے تھے اور سب ایک خاندان کی مانند ہی تھے۔ ان سے میرے رشتے سدا کے لئے بندھ گئے ہیں ۔ یہ میرے لئے بہت اہم ہیں۔جہاں تک سوال ہے پاکستانی عوام کا تو میرے دوست اور گھر والے کہتے ہیں کہ تم کو پاکستان کا سفیرہونا چاہئے۔میرے لئے یہ ملک بہت خوبصورت ہے اورمیرے پاس اس سے جڑی بہت سی خوبصورت یادیں ہیں۔
کیا آپ اگلی فلم بنانے بھی پاکستان ہی آئیں گے؟
انشاء اللہ ۔۔مجھے بہت خوشی ہوگی۔
سارے حقائق جاننے کے بعد ہمیں امید ہے کہ اگر کوئی تنازع تھا بھی تو وہ ختم ہوجائے گااور فلم بین عیدالاضحیٰ کی چھٹیوں کے دوران اس فلم سے بھی خوب انجوائے کریں گے جس طرح کہ وہ دوسری پاکستانی فلموں سے انجوائے کررہے ہیں۔