پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے اعجاز بٹ کی جگہ سینئر بینکر ذکاء اشرف کو پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کا نیا چیئرمین مقرر کردیا ہے۔
اعجاز بٹ کے عہدے کی تین سالہ میعاد کا 8 اکتوبر کو خاتمہ ہوگیا تھا تاہم انہیں نئے چیئرمین کی تقرری تک عہدے پر کام جاری رکھنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
منگل کو ذکاء اشرف نے صدر زرداری کے ساتھ ملاقات کی جس کے بعد ایوانِ صدر کی جانب سے ان کی چیئرمین پی سی بی کے عہدے پر تعیناتی کا اعلان کیا گیا۔ ذکاء اشرف اس سے قبل 'زرعی ترقیاتی بینک' کے صدر کے عہدے پر کام کر رہے تھے۔
ذکاء اشرف کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ صدر آصف علی زرداری کے سابق ہم جماعت اور قریبی دوست ہیں جبکہ ان کی بہن بیگم عشرت اشرف حزبِ مخالف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (نواز) کی رکنِ قومی اسمبلی ہیں۔
واضح رہے کہ پی سی بی کے آئین کے مطابق صدرِ مملکت بورڈ کے 'پیٹرن اِن چیف' ہونے کے ناطے چیئرمین کا تقرر کرنے کے مجاز ہیں۔
نئے چیئرمین کی تقرری کے ساتھ ہی پاکستان کرکٹ بورڈ پر اعجاز بٹ کی تین سالہ حکمرانی کا خاتمہ ہوگیا ہے جو بورڈ کی تاریخ کے سب سے متنازعہ لیکن مضبوط چیئرمین رہے۔
اپنے دور میں کھڑے ہونے والے کئی تنازعات اور اپنے مخصوص مزاج اور انداز کی سربراہی کے باعث اعجاز بٹ کو جہاں ایک جانب ذرائع ابلاغ اور سابق کھلاڑیوں کی کڑی تنقید کا نشانہ بننا پڑا وہیں ضابطہ اخلاق پر سختی سے عمل درآمد کے باعث انہیں مقتدر حلقوں کا اعتماد بھی حاصل رہا۔
1959ء سے 1962 ءکے دوران پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کی جانب سے 8 ٹیسٹ میچز کھیلنے والے اعجاز بٹ نے 8 اکتوبر 2008ء کو پی سی بی کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالا تھا۔
اس عہدے پر ان کی موجودگی کے دوران پاکستان کرکٹ کئی بحرانوں اور تنازعات کا شکار ہوئی جن میں لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے اور اس کے نتیجے میں پاکستان سے بین الاقوامی کرکٹ کی رخصتی، ورلڈ کپ کی میزبانی سے محرومی، کرکٹ بورڈ میں اکھاڑ پچھاڑ اور عہدیداروں کی باہمی کشیدگی، شعیب اختر، یونس خان اور شاہد آفریدی جیسے سینئر کھلاڑیوں کی چیئرمین سے اختلافات کے باعث قومی ٹیم سے علیحدگی اور 2010ء میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے دورہ انگلینڈ کے دوران 'میچ فکسنگ ' اسکینڈل کا منظرِ عام پر آنا جیسے معاملات سرِ فہرست ہیں۔
ان تمام بحرانوں اورمبصرین کے مطابق اپنے قدرے آمرانہ طرزِ تنظیم کے باعث اعجاز بٹ ذرائع ابلاغ، سابق کھلاڑیوں اور شائقین کی کڑی تنقید کا مسلسل نشانہ بنے رہے اور ان حلقوں کی جانب سے ان کی برطرفی کا مطالبہ بھی وقتاً فوقتاً سامنے آتا رہا۔