دنیا بھر میں سیپسس موت کا سب سے بڑا سبب ہے۔ مگر بہت سے لوگوں نے اس کے بارے میں نہیں سنا۔ امریکہ میں سالانہ دس لاکھ افراد سیپسس کا شکار ہوتے ہیں اور ان میں سے نصف وفات پا جاتے ہیں۔
ترقی پذیر ممالک میں یہ ہر سال 80 فیصد اموات کا سبب بنتا ہے جس سے عورتیں اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔
سیپسس نمونیا، آپریشن یا زچگی سے پیدا ہو سکتا ہے۔ اس کی علامات میں بخار اور سانس کا تیز چلنا بھی شامل ہیں۔ اس سے جسم کا مدافعتی نظام بے قابو ہو جاتا ہے جس سے بہت زیادہ سوجن، اعضا کا ناکارہ ہونا اور سیپٹک شاک پیدا ہوسکتا ہے جس میں بلڈ پریشر خطرناک حد تک گر جاتا ہے۔
مگر سیپسس کے ایک جدید علاج سے جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے ویز انسٹی ٹیوٹ کے سائنسدان خون کی صفائی ’ڈائلیسس‘ کے ایک نئے طریقے پر تحقیق کر رہے ہیں جو سوجن پیدا ہونے سے پہلے ہی خون میں سے زہریلے جراثیم کو صاف کر دے۔
ایک سینیئر سائنسدان مائیک سوپر نے کہا کہ ’’موجودہ طریقہ علاج میں سیپسس کے مریض کو اینٹی بائیٹک اور پانی کے زیادہ استعمال کا مشورہ دیا جاتا ہے مگر ہم یہاں سیپسس کے علاج کی بات کر رہے ہیں۔‘‘
تحقیق کار خون کی صفائی کے ایک ایسے طریقے پر کام کر رہے ہیں جس میں خون کو ایک نالی میں سے گزارا جائے گا جس میں باریک ریشوں کا ایک جال ہو گا۔ اس جال پر ایک مصنوعی پروٹین کا ملمع ہو گا جو بیکٹیریا، پھپھوندی، بہت سے وائرسز، دیگر جراثیم اور زہریلے مادوں کو پکڑ لے گا۔
انہوں نے اس طریقے کے بارے میں مزید بتایا کہ ’’ہم متاثرہ مریض کے خون کو اس پروٹین والی فلٹر میں سے گزاریں گے جو اس کے خون میں موجود تمام جراثیم کو چھان دے گا تاکہ ڈائلسس کے عمل کے بعد صاف خون مریض کے جسم میں واپس جائے۔‘‘
ابھی تک چوہوں پر اس طریقے کے تجربات کیے گئے ہیں اور اسے مہلک جراثیم کو صاف کرنے میں 99 فیصد مؤثر پایا گیا ہے۔ ریسرچ ٹیم اب جلد اس کا تجربہ انسانوں پر کرے گی تاکہ دنیا بھر سے لاکھوں افراد کی جانوں کو بچایا جا سکے۔